تحریر: زاہد حسین
گزشتہ ہفتے روس کے دارالحکومت ماسکو کے کنسرٹ ہال میں حملہ (جس میں تقریباً 140 افراد ہلاک ہوئے) عسکریت پسند گروپ داعش کے نام نہاد ’خراسان باب‘ کی دہشت گرد کارروائیوں میں توسیع کی نشاندہی کرتا ہے۔ روسی دارالحکومت میں داعش خراسان کا دلیرانہ حملہ اس گروپ کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ گروپ اب اس خطے سے باہر بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی لارہا ہے جہاں اب تک اس کی سرگرمیاں محدود تصور کی جارہی تھی۔
اس حملے نے داعش خراسان کو ایک عالمی دہشتگرد گروپ بنادیا ہے جوکہ اس سے قبل طویل عرصے سے صرف افغانستان اور اس کے اردگرد کے ممالک میں سرگرم تھا۔ جن مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کا تعلق وسطی ایشیائی خطے سے بتایا جارہا ہے۔ ماضی میں اس خطے نے مشرق وسطیٰ میں داعش کے لیے غیر ملکی جنگجوؤں کو تربیت دے کر ان کا ایک مضبوط دستہ تیار کیا ہے۔ عراق اور شام میں جہادی گروپس کے منتشر ہونے کے بعد اب ان میں سے بہت سے گروپس داعش خراسان سے وابستہ ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس گروپ نے روس کو نشانہ کیوں بنایا۔ چند تجزیہ کاروں کے مطابق انتہا پسند گروہ روس کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ستمبر 2022ء میں داعش خراسان نے کابل میں روسی سفارتخانے پر خودکش بم حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ وسطی ایشیائی ممالک میں داعش خراسان کے بڑھتے اثرورسوخ کے حوالے سے روس طویل عرصے سے تشویش میں مبتلا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جہاں ان حملوں میں اسلامی انتہا پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں انہوں نے اس حملے کو یوکرین جنگ سے بھی جوڑنے کی کوشش کی۔ مغربی میڈیا نے اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’شمالی قفقاز اور وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ جو افغانستان یا یوکرین سے یورپ آرہے ہیں، مغربی ممالک میں پُرتشدد کارروائیوں کے خواہشمند داعش خراسان کو دہشتگرد حملے کرنے کا موقع فراہم کریں گے‘۔
دوسری جانب ماسکو حملے نے دیگر ممالک کو دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کردیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں داعش خراسان ایک خطرناک دہشت گرد گروپ کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ امریکی ملٹری کے اعلیٰ افسر نے امریکی کانگریس کمیٹی کو ماسکو حملے سے ایک روز قبل بتایا کہ داعش خراسان ’کسی انتباہ کے بغیر چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں حملہ کرنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے‘۔ مغربی انسداد دہشت گردی کے حکام کے حوالے سے کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں میں داعش خراسان کی یورپ میں حملے کی متعدد سازشیں ناکام بنائی گئی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی اسلامک اسٹیٹ آرگنائزیشن داعش کی شاخ خراسان 2015ء میں بنائی گئی تھی جس کے بعد وہ افغانستان اور ایران میں کئی حملوں میں ملوث رہ چکی ہے۔ اس سال کے آغاز میں ایرانی قصبے کرمان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں نکالے گئے جلوس کے دوران ہونے والے حملے میں بھی داعش خراسان ملوث تھا۔ اس حملے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ ایران میں ہونے والے کئی دیگر حملوں میں بھی داعش خراسان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے۔
ماسکو حملے سے پہلے اس گروپ نے افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار میں خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ داعش خراسان پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے۔ مبینہ طور پر کچھ کالعدم سنی فرقہ پرست گروپ بھی داعش خراسان کا حصہ بن چکے ہیں۔
عالمی عسکریت پسند گروپ کی پاک-افغان علاقے میں خود کو منظم کرنے کی ابتدائی علامتیں 2014ء میں ہمارے سامنے آئیں۔ پاک فوج کی جانب سے کیے گئے سابقہ قبائلی علاقوں کے آپریشن میں نکالے گئے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان جاکر داعش خراسان کے ابتدائی دستوں کا حصہ بنے۔ کچھ نچلے درجے کے افغان طالبان کمانڈرز بھی اس عسکریت پسند گروپ کا حصہ بنے۔
2014ء میں صوبہ کنڑ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق افغان طالبان کمانڈر عبدالرحیم مسلم دوست کو داعش خراسان کو منتظم کرنے کے لیے نامزد کیا گیا۔ افغان طالبان کے کچھ بڑے ناموں کی شمولیت سے اس گروپ نے باقاعدہ ایک تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔
جنوری 2015ء میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں عسکریت پسندوں نے افغانستان اور پاکستان میں داعش کے سرکاری ولایت (صوبہ) کے منتظمین ہونے کا اعلان کیا۔ داعش کے سپریم کمانڈ نے خراسان (افغانستان، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا خطے کا تاریخی نام) کے لیے شوریٰ کی تشکیل کی توثیق کی۔ داعش نے پاکستان میں اورکزئی ایجنسی کے سابق ٹی ٹی پی کمانڈر حافظ سعید خان کو خراسان کے علاقے میں آئی ایس کا سربراہ نامزد کیا اور سابق افغان طالبان کمانڈر ملا عبدالرؤف جس نے گوانتاناموبے میں کئی سال گزارے تھے، اس کو حافظ سعید خان کا نائب مقرر کیا گیا۔
داعش خراسان کے قیام کے بعد جلد ہی یہ گروپ افغانستان کے متعدد صوبوں میں متحرک ہوگیا۔ اکثر واقعات میں تو افغان طالبان کے اعلیٰ کمنڈرز کی داعش میں شمولیت سخت عالمی نظریات کی بنا پر نہیں بلکہ گروپ کے بھاری مالی وسائل کی وجہ سے تھی۔ بہت سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے افغان طلبان اور داعش خراسان آمنے سامنے بھی آئے۔
تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد داعش خراسان میں انتہاپسندوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں انتہاپسندوں کی تعداد 4 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دیگر عسکریت پسند گروپوں سے اس کا حصہ بنے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ اس کے اتحاد نے اسے مزید مضبوط کیا۔
امریکی جنگ کے اختتام پر داعش خراسان کے حملوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ اس گروپ نے 2021ء میں امریکی انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر بھی حملہ کیا تھا جس میں 13 امریکی فوجی سمیت بڑی تعداد میں افغان شہری مارے گئے تھے۔
جنوری میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی داعش خراسان کو شکست دینے کی کوششوں کی وجہ سے افغانستان میں دہشگرد حملوں میں کمی آئی ہے۔ لیکن ان دو گروپس کے گٹھ جوڑ سے لاحق خطرے کے اثرات خطے سے باہر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں؛بھارت میں شرح پیدائش کم ہوگئی ، آبادی کم ہونے کا امکان
بین الاقوامی عسکریت پسند گروپس اور انتہاپسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ افغان طالبان کی ٹی ٹی پی جیسے عسکریت پسند گروپوں کی مسلسل حمایت کو داعش خراسان کے دوبارہ سر اٹھانے کی ایک اہم وجہ سمجھا جاسکتا ہے۔
داعش خراسان میں شامل بہت سے انتہا پسند ٹی ٹی پی کے دھڑوں سے اس گروپ میں شامل ہوئے ہیں جو افغانستان میں پناہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ ایک جانب جہاں داعش خراسان افغان طالبان سے لڑ رہا ہے وہیں یہ گروپ مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دھڑوں کا اتحادی بھی ہے۔
ماسکو حملہ واضح کرتا ہے کہ گروپ کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت اس خطے اور اس سے باہر کے علاقوں کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ اس مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ علاقائی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔