75سالوں میں مجموعی طور پر 14 صدر مملکت آئے ہیں جن میں سے 5 فوجی جبکہ 9 سویلین صدر تھے۔
تقسیم ہندکے بعد وجود میں آنے والے پاکستان کو اپنے سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935 کے ’انڈیا ایکٹ‘ کے تحت بنانا پڑا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف لیا۔
قائد اعظم چاہتے تھے کہ اس منصب سے پاکستان کو ایک ایسا مضبوط جمہوری ڈھانچہ فراہم کیا جائے کہ جس سے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ عہدہ طاقت کی ایک کرسی بن گیا جس کے گرد میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔ 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور صدر کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔
ملک میں صدارتی و پارلیمانی نظام اور مارشل لا کے ادوار میں اب تک مجموعی طور پر 14 صدور اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور پاکستان کے آئینی سربراہ کے عہدے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان نے 9 مارچ 2024 کو ایک بار پھر نئے صدر کا انتخاب کیا۔
ملکی تاریخ میں یہ تیسرا موقع تھا کہ ایک منتخب سول صدر کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے کے بعد اگلی مدت کے لیے نئے صدر کا چناؤ کیا گیا۔
پاکستان کی صدارتی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عروج و زوال سے بھری پڑی ہے جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
اسکندر مرزا
23 مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958
پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا تھے جو لگ بھگ 2 سال 7 ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1956 میں ملک کے پہلے آئین کے وجود میں آنے کے صرف دو سال بعد ہی اسکندر مرزا نے اس آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا
اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔
27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کی قیادت میں ہونے والی کامیاب فوجی بغاوت میں انہیں اس عہدے ہٹا دیا گیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان
27 اکتوبر 1958 سے 25 مارچ 1969
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ہری پور میں پیدا ہوئے اور پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں بنے جنہوں نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا اور تقریباً ساڑھے 10 سال صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 1960 میں ایک صدارتی ریفرنڈم کرایا اور پھر 1964 کے انتخاب میں تمام جماعتوں کے طرف سے فاطمہ جناح کی حمایت اور عوامی مقبولیت کے باوجود کامیابی حاصل کی، تاریخ دان متفقہ طور پر اس الیکشن کو شفاف تسلیم نہیں کرتے۔
جنرل ایوب خان کے دو ر کو سنہرے دور کےطور پر یاد کیا جاتا ہے ۔ ایوب خان کے صدارتی دور میں صنعتی ترقی ہوئی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم تعمیر ہوئے ۔پاکستان میں انڈسٹری کو مضبوط کیا گیا۔
یوں کہ لیجیے کہ نوزائیدہ پاکستان کو پہلی توانائی ایوب خان کے دور میں میسر آئی ۔
ایوب خان کے ہی دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ ہوئی جس سے پاکستان کی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جنرل ایوب 1969 میں اپوزیشن کے دباؤ پر حکومت سے دستبردار ہوئے لیکن اپنے دور میں ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار عوامی نمائندوں کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا، ان کا انتقال 1974 میں پاکستان میں ہوا۔
جنرل یحییٰ خان
25 مارچ 1969 سے 20 دسمبر 1971
آغا محمد یحییٰ خان چکوال میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور کٹھن ترین دور میں ایک فوجی حکمراں کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ 1967 میں ایک طرف ایوب خان کے دور کے خلاف عوامی جذبات تھے تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک۔ انہیں بڑے پیمانے پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔
1971 میں بھارت سے جنگ میں بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر رائے عامہ یحییٰ خان کے خلاف اس قدر ہوگئی کہ ان کا مزید اپنے عہدے پر برقرار رہنا ناممکن ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے 20 دسمبر 1971 کو صدارتی اقتدار مغربی پاکستان کی مقبول جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے کردی۔ یحییٰ خان کا انتقال 1980 میں راولپنڈی میں ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو
20 دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973
ذوالفقار علی بھٹو پہلے جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر خارجہ اور پھر ان کے خلاف عوامی تحریک کے بانیوں میں سے تھے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ملک کے پہلے صدر اور سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کو متحد کرنے اور جمہوریت کی بحالی کا وعدہ کرکے اقتدار سنبھالا۔
انہیں ’قائد عوام‘ یعنی عوام کا رہبر اور ’بابائے آئین‘ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو 1973 میں متفقہ آئین دیا اور جمہوری اداروں کو مضبوط کیا۔
1973 کے آئین میں پہلی مرتبہ ملک میں پارلیمنٹ کو ایوان بالا یعنی سینیٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا، ملک کے تیسرے آئین میں پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ حکومت کا سربراہ، وزیراعظم کو مقرر کرے جبکہ اس عہدے کو ملک کے ایگزیکٹو کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے، نئے آئین میں بھی گزشتہ برسوں میں پیش کیے گئے 2 آئینی مسودوں کی طرح بنیادی حقوق، آزادی اظہار رائے جبکہ اضافی طور پر مذہب، پریس، تحریکوں، ایسوسی ایشن کی آزادی، زندہ رہنے اور اسلحہ رکھنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگر آزادیاں دی گئیں، آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ مذکورہ آئین کی نمایاں خصوصیات میں پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وزیراعظم کو ملک کا سربراہ قرار دیا جانا، صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا، آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا لازمی قرار دینا، اردو کو پاکستان کی قومی زبان، عدلیہ کی آزادی کی ضمانت، عصمت فروشی سمیت دیگر غیر اخلاقی معاملات پر پابندی اور عربی زبان کو فروغ دینا وغیرہ شامل ہیں۔
ملک کو 1973 کا آئین دینے کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے متعدد ایسی پالیسیز اور اصلاحات کی گئیں جس سے نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں بھی پاکستان کا کردار نمایاں طور پر سامنے آنے لگا، جس میں صنعتی شعبے میں اصلاحات، زمین اور زرعی اصلاحات، معاشی پالیسی، بینکنگ اور برآمدات میں توسیع، پاسپورٹ کے حوالے سے اصلاحات، لیبر پالیسی اور سوشل سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات قابل ذکر ہیں۔
ملک کو متفقہ آئین دینے کے علاوہ ایٹمی صلاحیت کا حصول اور عوامی شعور اجاگر کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا گیا جنہوں نے بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو ان کو عبرتناک مثال بنا دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی دھمکی کو مسترد کیا اور ڈاکٹر قدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔
وہ خود ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کیا۔
1973 کے آئین کے تحت جب پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریہ بنا تو ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بننے کے لیے صدارت سے مستعفی ہوئے۔ اس آئین کے تحت اختیارات کا طرہ منتخب پارلیمان اور وزیرِاعظم کے سروں پر سجا دیا گیا، جس کے بعد صدر کا عہدہ فائلوں پر دستخط کرنے اور تقریبات میں فیتہ کاٹنے تک سمٹ کر رہ گیا۔
لیکن بھٹو کے ہی دور میں ایوب خان کی کھڑی کی گئی انڈسٹری کو نیشنلائز کیا جانے لگا ۔جس کے نیتجے میں بہت سے انڈسٹری مالکان اپنی انڈسٹڑیز کو بیرون ملک شفٹ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
5 جولائی 1977 کو مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے ہٹا کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ 18 مارچ 1977 کو انہیں اس قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
فضل الہٰی چوہدری
14 اگست 1973 سے 16 ستمبر 1978
فضل الہٰی چوہدری 1973 کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کے وہ پہلے صدر بنے جن کے پاس وزیر اعظم سے کم اختیارات تھے۔ وہ 5 سال ایک ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ کھاریاں سے تعلق رکھنے والے فضل الہٰی چوہدری قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے تھے اور پارلیمانی سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے تھے۔
1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پی این اے کی تحریک زور پکڑ گئی جس کے بعد جنرل ضیاالحق، ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرکے ملک کے تیسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ ضیاالحق کے شب خون مارنے کے کچھ عرصے تک تو فضل الہٰی صدر کے عہدے پر فائز رہے لیکن پھر وہ 14 ستمبر 1978 کو سبکدوش ہوگئے۔
جنرل ضیا الحق
16 ستمبر 1978 سے 17 اگست 1988
جالندھر میں پیدا ہونے والے جنرل ضیاالحق لگ بھگ 10 سال صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا نے بھی ریفرنڈم کروایا۔ چنانچہ 1984 میں انہوں نے منعقدہ ریفرنڈم میں وہ 95 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
ریفرنڈم کے اگلے ہی برس جنرل ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ نومنتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کی جس کی شق 58 (ٹو) (بی) کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ اب وہ محض صدر نہ رہے بلکہ ان کے سامنے وزیر اعظم اور پارلیمان ربر اسٹیمپ بن کر رہ گئے۔ ان ہی کے دور میں پاکستان سرد جنگ میں امریکا کا بڑا حلیف بنا۔
ضیاء الحق نے اپنی حکومت میں حدود اور زکٰوۃ آرڈیننس، شریعت قوانین، توہین مذہب، مدرسہ توسیع، ثقافتی پالیسی، شرعی عدالتیں، معاشی پالیس، آئین میں ترمیم اور معذوروں کی فلاح کے لیے اقدامات وغیرہ متعارف کروائے۔
17 اگست 1988 کو صدر ضیاالحق کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہوگیا۔جس میں صدر ضیاء الحق شہید ہوگئے ۔ 1973کے آئین کے تحت صدر کی غیر موجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے، چنانچہ وہ ملک کے پانچویں صدر بن گئے۔
غلام اسحٰق خان
17 اگست 1988 سے 18 جولائی 1993
پشاور سے تعلق رکھنے والے غلام اسحٰق خان کا دور صدارت تقریباً 5 برسوں پر محیط رہا۔ 16 نومبر 1988 کو انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔ تاہم بےنظیر بھٹو کی حکومت نے مصلحتاً غلام اسحٰق خان ہی کو صدر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے یہ فیصلہ خاصا بھاری ثابت ہوا اور غلام اسحٰق خان نے دو سال کے اندر ہی آٹھویں ترمیم کے تحت صدر کو حاصل اختیار استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بساط لپیٹ دی۔
اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی۔ شروعات میں تو ان کی حکومت کے غلام اسحٰق خان کے ساتھ تعلقات بہتر رہے لیکن رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جولائی 1993 میں نواز شریف نہ صرف خود وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ غلام اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔
عام انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت کی تشکیل تک سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد ملک کے قائم مقام صدر بنے۔ وہ 14 نومبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے جس کے بعد نئی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے فاروق احمد خان لغاری کو عہدہ صدارت کے لیے نامزد کردیا۔ وسیم سجاد نے صدر کے انتخاب میں باقاعدہ حصہ بھی لیا لیکن فاروق لغاری نے انہیں ہرا دیا۔
فاروق لغاری
14 نومبر 1993 سے 2 دسمبر 1997
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کے ساتھ 1993 میں ملک کے صدر بنے، لیکن انہوں نے 1996 میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو آٹھویں ترمیم استعمال کرتے ہوئے کرپشن کے الزام میں برطرف کردیا۔
1997 کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی جماعت نے بھرپور اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور بھاری مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیارات کو ختم کرا دیا جس کے بعد نواز شریف اور صدر کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے اور فاروق لغاری کو مستعفی ہونا پڑا۔
چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد ایک بار پھر ایک ماہ کے مختصر عرصے کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بنے۔
رفیق تارڑ
یکم جنوری 1998 سے 20 جون 2001
محمد رفیق تارڑ 1997 میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور یکم جنوری 1998 کو ملک کے صدر بنے۔ ان کے دور میں صدر کے اختیارات کو بتدریج کم کیا گیا اور بالآخر تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں مزید کمی کردی گئی۔
جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ منتخب کیا اور رفیق تارڑ کو صدر رہنے دیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے بھی ایک ریفرنڈم منعقد کروایا اور رفیق تارڑ کو گھر بھجوا کر 20 جون 2001 کو خود صدارت کا حلف اٹھا لیا۔
جنرل پرویز مشرف
20 جون 2001 سے 6 اکتوبر 2007
پرویز مشرف کا دور صدارت رفیق تارڑ اور چوہدری فضل الہٰی کی طرح اختیارات سے عاری نہ تھا۔ انہوں نے 58 (ٹو) (بی) کا گڑا مردہ نکالا اور اسے اسمبلی اور وزیرِ اعظم کے سر پر تلوار کی طرح لٹکا دیا جس کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کی حیثیت ثانوی ہوگئی۔
11 ستمبر 2001 کو امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین کے ذریعے واشنگٹن نے پرویز مشرف کے سامنے مطالبات رکھے، جنہیں انہوں نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور یوں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان باقاعدہ طور پر شامل ہوگیا اور راتوں رات تین دہائیوں پر مشتمل افغان پالیسی تبدیل کردی گئی۔
پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور محفوظ کرنے کی خاطر 30 اپریل 2002 میں ایک صدارتی ریفرنڈم کروایا جس کے مطابق 98 فیصد عوام نے انہیں آئندہ 5 سالوں کے لیے صدر منتخب کر لیا۔ تاہم اس ریفرنڈم کو سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے مسترد کردیا اور اس کا بائیکاٹ کیا۔
اکتوبر 2002 میں ہونے والے عام انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی کی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جنرل پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ دسمبر 2003 میں کیے گئے معاہدے (کہ وہ ایک سال کے بعد وردی اتار دیں گے) کو پورا نہیں کیا،تاہم انہوں نے اپنی حامی اکثریت سے قومی اسمبلی میں 17ویں ترمیم منظور کروا لی جس کے نتیجے میں انہیں پاکستان کے باوردی صدر ہونے کا قانونی جواز مل گیا۔
2007 میں انہوں نے ملک کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تاہم سپریم کورٹ نے اسے چیلنج کردیا جبکہ اسی دوران بینظیر بھٹو ملک میں واپس آگئیں، اس موقع پر انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا اور نئے چیف جسٹس کو مقرر کردیا گیا، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی تصدیق کی تاہم وکلا کی جانب سےاس اقدام کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی گئی، اس دوران کراچی میں 12 مئی کے پُرتشدد واقعات بھی پیش آئے، جس میں وکلا سمیت درجنوں شہری جاں بحق ہوئے جبکہ پرویز مشرف نے شدید عوامی دباو کے باعث افتخار محمد چوہدری کو دوبارہ چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کردیا۔
دسمبر 2007 میں بےنظیر کی شہادت اور 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد پرویز مشرف پر استعفے کا دباؤ بڑھا۔ انہوں نے شروع میں ایسا کرنے سے انکار کیا لیکن تمام جماعتوں کی طرف سے ان کے مواخذے کی دھمکی کے بعد وہ اگست 2008 میں مستعفی ہوگئے۔
ان کے مستعفی ہونے کے بعد محمد میاں سومرو ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بنے۔
آصف زرداری
9 ستمبر 2008 سے 8 ستمبر 2013
آصف علی زرداری نے مخالفت کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد مفاہمتی پالیسی اختیار کی اور پانچ سال اس پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ انہوں نے اپنے دور صدارت میں کچھ ایسے فیصلے کیے جنہیں اعلیٰ سطح پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے 8 اپریل 2010 کو 18ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دیے، چونکہ ان کی پارٹی برسراقتدار تھی اور وہ اپنی جماعت کے صدر بھی تھے اس لیے انہیں اپنے دور کے دوران کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔
آصف علی زرداری کو نومبر 2009 میں گلگت بلتستان کو خودمختاری دینے اور پاکستان کے شمال مغربی صوبے کا نام تبدیل کرکے ’خیبر پختونخوا‘ رکھنے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے۔ تاہم صدر کے عہدے پر فائز رہنے کے پانچ سال کے دوران ان پر کرپشن کے کئی الزامات بھی لگے۔
ممنون حسین
9 ستمبر 2013 سے 8 ستمبر 2018
ملک کے بارہویں صدر ممنون حسین نے مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد 9 ستمبر 2013 کو صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ صدارتی انتخاب میں انہوں نے 432 ووٹ لیے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے۔
ان کے دور صدارت میں حکومتی فیصلوں کے بعد کئی صدارتی فرمان اور آرڈیننس جاری کیے گئے۔ اس کے علاوہ ان کی حیثیت آئین کے تحت رسمی ہی رہی۔
ڈاکٹر عارف علوی
23 ستمبر 2018 سے 8 مارچ 2024
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد 9 ستمبر 2018 کو عہدے کا حلف اٹھایا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹ میں سے عارف الرحمٰن علوی نے 353 ووٹ حاصل کیے، مولانا فضل الرحمٰن نے 185 اور اعتزاز احسن نے 124 ووٹ حاصل کیے۔
ان کی مدت صدارت 8 ستمبر 2023 کو باضابطہ طور پر ختم ہوگئی تھی لیکن صدر کے انتخاب کے لیے درکار ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے باعث ڈاکٹر عارف علوی 8 مارچ 2024 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
عارف علوی پر ان کے دور صدارت میں کئی بار آئین شکنی کے الزامات لگے، بالخصوص اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے تقریباً 16 ماہ کے دور حکومت میں وہ کئی بار متنازع ہوئے اور سیاسی جماعتوں نے ان پر متعدد بار ملک کا صدر ہونے کے بجائے سیاسی جماعت کے کارکن کا کردار ادا کرنے کا الزام لگایا۔
آصف زرداری
آصف علی زرداری واحد پاکستانی صدر ہیں جنہیں دوسری مرتبہ منصب صدارت ملا ہے ۔ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اس پر کتنی دیر تک براجمان رہتے ہیں۔