حوالدار لالک جان نے کارگل جنگ میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا
حوالدار لالک جان (شہید) نشانِ حیدر 1967ء میں آبائی گاؤں غذر یاسین گلگت میں پیدا ہوئے، وادی غذر جِسے وادی شہداء بھی کہا جاتا ہے، لالک جان پاک فوج میں 12 این ایل آئی کے ایک بے باک نڈر اور بہادر سپاہی کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔
مئی 1999ء میں حوالدار لالک جان نے اگلے مورچوں پر لڑائی لڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور ایک انتہائی مشکل اور دشوار گزار پہاڑی چوکی پر دُشمن سے نبرد آزما ہونے کیلئے کمر باندھ لی، قادر پوسٹ آج بھی نازاں ہے کہ اُسے لالک جان جیسا نِڈر محافظ مِلا۔
12جون 1999ء کو لالک جان نے دُشمن کی پیٹرول پر اچانک ایسا زبردست حملہ کیا کہ دُشمن اپنی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا، جون 1999ء کے آخری ہفتے میں ایک رات کو دُشمن کی بھاری نفری نے حوالدار لالک جان کی چوکی پر حملہ کیا، حملے کے دوران آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مختلف پوزیشنوں سے دُشمن پر فائر کرتے رہے اور ہر مورچے میں جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے، رات بھر جاری رہنے والے حملے کو آپ اور آپکے ساتھیوں نے ناکام بنا دیا اور صبح نامراد دُشمن لاشوں کے انبار چھوڑ کر پسپا ہو گیا۔
حملے کی دوسری رات مزید کمک حاصل کرنے کے بعد دُشمن نے ایک بار پھر مختلف اطراف سے حملہ کیا لیکن آپ اور آپکی کمپنی نے اس رات بھی بے باکی اور جرأت مندی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے یہ حملہ بھی ناکام بنا دیا اور دُشمن کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا۔
حوالدار لالک جان شہید کا 25 واں یوم شہادت، دعاؤں اور قرآن خوانی کا اہتمام
7 جولائی کو حوالدار لالک جان دشمن کے توپخانے کے بھاری فائر اور تین اطراف سے حملے کے دوران شدید زخمی ہوگئے، کمپنی کمانڈر نے انہیں پیچھے جا کر علاج کرانے کا کہا، مگر لالک جان نے کہا کہ ”میں کسی اسپتال کے بستر کے بجائے میدانِ جنگ میں جان دینے کو ترجیح دوں گا“، انہوں نے زخمی حالت میں بھی بھاری فائر کے دوران دُشمن کے بنکر میں بارود پھنک کر اسے ایمونیشن سمیت تباہ کردیا، جس سے دُشمن کے درجنوں فوجی ہلاک ہو گئے۔
دوسری سمت سے دُشمن کے فائر کی زَد میں آکر بالآخر لالک جان نے اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کی اور جام شہادت نوش کرکے اَمر ہو گئے، ان کی بے مثال جرات اور لازوال قربانی کے اعتراف میں انہیں نشانِ حیدر کا اعزاز عطا کیا گیا، قادر پوسٹ کے زبردست دِفاع کا اعتراف دُشمن نے ان الفاظ میں کیا ”کسی بھی سپاہی نے اپنی پوسٹ نہ چھوڑی، یہ دِفاعی جنگ بہادری کی اعلیٰ مثال ہے کہ جو آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑی گئی“۔