جلدی بیماریوں میں خارش ایسی بیماری ہے جو نسان کا چین و سکون چھین سکتی ہے۔
جلدی کی بیماریوں میں خارش یا خارش یا کھجلی کا شمار عام طور سنگین بیماریوں میں نہیں ہوتا۔ لیکن اگر خارش کی بیماری طول پکڑ لے اور دائمی ہو جائے تو یہ کسی متاثرہ شخص کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن خارش یا کھجلی کی ایک خاص قسم بھی ہوتی ہے جسے آپ محض خارش نہیں کہہ سکتے، اس قسم کی کھجلی انسان کا چین و سکون چھین سکتی ہے۔
خارش کی اس شکل میں انسان کو مسلسل کھجلی ہوتی رہتی ہے اور بار بار کھجانے کے باوجود وہ کم نہیں ہوتی۔ باربار اور زور زور سے کھجانے کی وجہ سے اس شخص کا کھجلی سے متاثرہ حصہ خون آلود بھی ہو جاتا ہے لیکن اسے سکون نہیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر سوربھ جندل میکس ہاسپٹل گروپ کے ڈرماٹولوجسٹ ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اس کے کیسز کم ہیں، لیکن ایسا ہر کیس اپنے آپ میں سنگین ہے۔‘
ڈاکٹر سوربھ جندل کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس آنے والے مریضوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کھجلی کو کم کرنے کے لیے جسم کے اس حصے کو موم بتی سے جلا بھی دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورت حال کتنی سنگین ہو سکتی ہے۔
طبی اصطلاح میں شدید خارش کی اس کیفیت کو پروریگو نودولائرس (پی این) کہا جاتا ہے۔اور یہ حالت عام طور پر چھے ہفتوں تک رہتی ہے۔ کھجلی کے ساتھ جسم پر دانے دار پھنسیاں بھی نمودار ہوتی ہیں جنھیں نوڈول کہتے ہیں۔ ان پھنسیوں میں جراثیم بنتے ہیں جو خارش کی خواہش کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں کئی بار مریض کی کیفیت ایسی ہوتی ہےکہ وہ آرام سے نہ بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی سکون سے سوسکتا ہے۔
مسلسل کھجانے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جلد پر زخم پڑ جاتے ہیں اور خون بھی بہنے لگتا ہے لیکن آرام نہیں آتا ہے۔ کھجلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ مریض کو سوزش اور چبھن محسوس ہوتی ہے۔ خارش کا سامنا کرنے والے شخص کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سی چیونٹیوں نے انھیں بیک وقت کاٹنا شروع کر دیا ہو۔ یہ اچانک شدید خارش سے مختلف حالت ہے کیونکہ اس میں کھجلی مسلسل محسوس ہوتی ہے۔
تاہم تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ ایک متعددی بیماری نہیں ہے ،یعنی یہ انسان کو چھونے سے نہیں لگتی ۔ امریکن نیشنل آرگنائزیشن آف ریئر ڈس آرڈرز (نورڈ) کے اعداد و شمار کے مطابق یہ بیماری دنیا کے مختلف حصوں میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 22 سے 72 افراد میں پائی جاتی ہےجبکہ خواتین میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ہر 100کیسز میں 54خواتین میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ پی این کی اس بیماری سے متاثرہ ہونے والوں میں اکثر40 سال سے اوپر ہے۔
خارش کے اسباب کیا ہیں؟
آج سے 100 سال قبل 1920 تک لوگ شدید خارش اور خارش میں فرق نہیں کرتے تھے۔ آسٹرین۔ جرمن ماہر فزیالوجسٹ میکس وون فرائی نے جسم میں ایک چھوٹا عضو دریافت کیا جس کی وجہ سے خارش کے کچھ دیر بعد درد محسوس ہوتا ہے۔اس کے 87 سال بعد 2007 میں واشنگٹن یونیورسٹی میں سکول آف میڈیسن کے زیو فینگ شین کی قیادت میں ایک ٹیم نے انسانی ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصابی خلیات دریافت کیے جو جسم میں خارش کا باعث بنتے ہیں۔
چہرے کا درجہ حرارت سے شوگر کی تشخیص میں معاون ثابت ہوسکتا ہے، طبی تحقیق
چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب ان خاص خلیات کو نکالا گیا تو انھوں نے اپنے جسم کو کسی بھی طرح سے نہیں کھجایا، حالانکہ انھیں درد محسوس ہوا تھا۔ درحقیقت اس تجربے کی وجہ سے سائنسدانوں نے ایسے نیورونز دریافت کیے جن کے ذریعے کھجلی کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ ڈرمیٹولوجی کے پروفیسر مارلیس فوسیٹ نے بی بی سی فیوچر کو بتایا کہ ڈاکٹر برائن کم کی تحقیق میں ایسے مالیکیولز بھی دریافت ہوئے ہیں جو ان نیورونز کی سرگرمی کو کم کرتے ہیں۔ ان مسائل پر تحقیق کرتے ہوئے فوسیٹ نے سنہ 2023 میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق آئی ایل-31 ایک ایسا کیمیکل ہے جس کی سرگرمی کو کم کر کے خارش کو کم کیا جا سکتا ہے۔