حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہباز شریف کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد

اسماعیل ہنیہ

Hammas Leader Ismail Hania

ہم دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو پاکستان کی خدمت اور خوشحالی قائم کرنے میں مدد کرے

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے شہباز شریف  بننے پر مبارکباد پیش کی ۔ اسماعیل ہنیہ نے  پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو پاکستان کی خدمت اور خوشحالی قائم کرنے میں مدد کرے۔

اسماعیل ہنیہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کو دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں،ہم دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو پاکستان کی خدمت اور خوشحالی قائم کرنے میں مدد کرے،ماہ مقدس رمضان المبارک میں مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں اور غموں کے بوجھ سے لبریز یہ خط ارسال کررہے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ نے کہاکہ غزہ کے لوگوں کو قتل عام اور نسل کشی کا سامناہے، لوگوں پر جنگی جرائم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،ساری دنیا اس وحشیانہ جارحیت اور عالمی اداروں کی نااہلی کو حیرت سے دیکھ رہی ہے، عالمی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے فیصلوں اور سفارشات کے باوجود دنیا قابض اسرائیل کو غزہ کے خلاف نسل کشی کی جنگ روکنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہے۔

خط کے مطابق قابض اسرائیل اس جنگ کو پورے تکبر اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کے ہر زاویے کو پامال کر رہا ہے۔  اسرائیل جان بوجھ کر بچوں، خواتین اور معمر افراد سمیت معصوم افراد اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔اسرائیل غزہ میں زندگی کے تمام آثار کو ختم کرنے کے لیے مساجد، گرجا گھروں، سکولوں، ہسپتالوں، پر امن شہریوں کے مکانات، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہا ہے۔

  اسماعیل ہنیہ نےلکھا کہ اپنے گھناؤنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے قابض اسرائیلی حکام بھوک اور قحط کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اپنے شرمناک جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قابض دشمن غزہ شہر اور اس کے شمال میں آنے والی ہنگامی امداد کا راستہ روک رہا ہے۔ نیز اپنے بچوں کے لیے رزق کی تلاش میں نکلنے والے بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے خلاف یہ کارروائیاں ایسا حملہ ہیں جو تمام بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔

اسماعیل ہنیہ نے لکھا کہ تحریک حماس، فلسطینی عوام، ان کی نمائندہ جماعتیں اور تنظیمیں بیک زبان ہو کر ان تمام کوششوں اور اقدامات کو سراہتے ہیں جن کے ذریعے دنیا فلسطینیوں کی حمایت اور انہیں امداد فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔غزہ کی پٹی کے خلاف وحشیانہ جارحیت کی وجہ سے ہونے والی بڑی تباہی کو فلسطینی عوام کے جسموں اور روح پر جھیلتے ہوئے ہم آپ کی توجہ درج ذیل امور کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں:۔

1۔ فلسطینی قوم کے خلاف جارحیت کو فوری طور پر رکوانے کیلئے مختلف سیاسی، سفارتی اور قانونی پلیٹ فارمز پر مؤثر کارروائی کی جائے۔ قابض اسرائیل کو اس گھناؤنی جنگ کو غیر مشروط طور پر روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اس کی حمایت کرنے والے بین الاقوامی دارالحکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے۔

2۔ فلسطینی عوام کی خوراک، ادویہ اور رہائش کے حوالے سے ضروریات میں انہیں حقیقی ریلیف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، غزہ کو دنیا سے ملانے والی راہداریوں کو مکمل طور پر چلانے کے لیے کھولا جائے تاکہ متاثرہ علاقوں میں فوری ضرورت کی اشیاء کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔اسماعیل ہنیہ نے کہاکہ اہل غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر ختم ہو تاکہ غزہ کی تباہ شدہ پٹی میں تعمیر نو کا ایک جامع عمل شروع ہو سکے۔

3۔ قابض اسرائیل کے خلاف مقدمہ چلانے اور اس کے جرائم کو بے نقاب کرنے میں مدد کی جائے۔ غزہ میں نسل کشی پر مبنی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کی جانے والی روزمرہ اسرائیلی کارروائیوں کے باعث اسے سیاسی اور سفارتی طور پر الگ تھلگ کرنے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں۔

4۔ قابض اسرائیل خطے میں تمام مسائل اور عدم استحکام کی جڑ ہے اور اس کا برقرار رہنا بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے اصولوں سے متصادم ہے۔ فلسطینی عوام کی خودمختاری اور آزادی کا حصول ہی مسئلہ کو جڑ سے ختم کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ اس سے علاقائی اور عالمی سطح پر نئے اور مختلف مراحل کی شروعات ہوں گی۔

اسماعیل ہنیہ نے لکھا کہ ہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایسے وحشیانہ جرائم  فلسطینیوں کو آزادی اور خودمختاری کے حصول اور ایک آزاد فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت القدس ہو، کے قیام تک مزاحمت کی راہ پر چلنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔

خط کےآخر میں اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم آپ کو اور دنیا کے تمام آزادی پسند عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ فلسطینی اپنی سرزمین سے والہانہ طور پر وابستہ ہیں اور اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کے ایک جائز طریقے کے طور پر مزاحمت کے انتخاب پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔ ہم ان تمام منصوبوں کا مقابلہ کرنا جاری رکھیں گے جن کا مقصد فلسطینی کاز کو ختم کرنا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی بڑی قیمت اور قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

یہ بھی پڑھیں؛فلسطینی فٹبالر محمدبرکت اسرائیلی حملے میں شہید

Exit mobile version