کولمبیایونیورسٹی سمیت ملک بھرکی دیگر یونیورسٹیز میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں میں شدت آرہی ہے
امریکہ میں غزہ جنگ کے خلاف طلبہ کے مظاہرے تاحال جاری ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سمیت ملک بھر کی دیگر جامعات میں مظاہرے دن بدن شدت اختیار کررہے ہیں۔نیویارک یونیورسٹی،ٹیکساس اور کیلفورنیا یونیورسٹی میں بھی طلبہ غزہ جنگ کے خلاف مظاہر ے کررہے ہیں۔ نیو یارک یونیورسٹی اور ییل کے علاوہ برکلی کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف مشیگن، ایمرسن کالج اور ٹفٹس میں بھی مظاہرین کی جانب سے خیمے لگائے گئے ہیں۔
جبکہ ٹیکساس اور کیلفورنیا میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیاہے۔ یاد رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے جواب میں غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی جنگ جاری ہے۔ اُس وقت سے امریکی کیمپسز میں غزہ جنگ اور اظہار رائے کی آزادی پر شدید بحث اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے بعد انتظامیہ اور پولیس کی کاروائیاں بھی جاری ہیں۔ گزشتہ پیر کی شب پولیس نے نیویارک یونیورسٹی (این وائے یو) میں خیمے لگانے والے احتجاجی طلبا کے خلاف کارروائی کی اور کئی افراد کو حراست میں لیا۔ اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ سے ان کمیپ کے سائز سے متعلق مذاکرات کر رہی ہے۔ طلبہ کو سکیورٹی کے پیش نظر آن لائن کلاسز لینے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا ۔ مائیک جانسن نے بُدھ کی سہہ پہر کو نعمت شفیق سے ایک مختصر ملاقات کے بعد ایوان نمائندگان کے دیگر اراکین کے ہمراہ کولمبیا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔
سپیکر مائیک جانسن نے اس دورے کے دوران کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ سپیکر نے کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کیمپس میں امن بحال کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا اور کیمپس میں ’یہود مخالف‘ واقعات کے اس رجحان سے یہودی طلبہ کی حفاظت میں ناکام رہی۔ مائیک جانسن نے کہا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو ہم نیشنل گارڈز کو بھی طلب کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں؛آئرلینڈ نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا
مائیک جانسن نے کہا کہ ’یہ خطرناک ہے۔ ہم آزادی اظہار کا احترام کرتے ہیں۔ ہم مختلف نظریات کا احترام کرتے ہیں۔ مگر ان سب کے اظہار کا ایک طریقہ ہے اور اس طرح ان خیالات کی ترویج کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں بنتی۔
انھوں نے اپنی پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’میرا طلبہ کے نام یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی کلاسز میں واپس چلے جائیں اور اس بے تُکے احتجاج کو ختم کریں۔‘ اس پریس کانفرنس کے دوران قریب کھڑے طلبہ مسلسل نعرے بازی کرتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ ’ہم آپ کو نہیں سن پا رہے ہیں۔
طلبہ کا مطالبہ
اس غزہ جنگ مخالف اور یہود مخالف تحریک میں طلبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں اُن ہتھیار بنانے والوں اور ’اسرائیلی قبضے کی حمایتی کمپنیوں کے بارے میں بتایا جائے جو اُن کے ادارے کی مالی معاونت اور فنڈنگ کرتی ہیں۔‘
الیہاندرو تینون نامی ایک طالبعلم نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ امریکہ ایک ’نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘۔ انھوں نے ان مظاہروں کو تاریخی اعتبار سے ویتنام جنگ اور جنوبی افریقہ میں نسلی پرستی کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے جوڑا۔ یاد رہے کہ اِن واقعات پر بھی امریکہ میں طلبا کی جانب سے تحریکیں چلائی گئی تھیں۔
مظاہرین میں شریک ایک طالبعلم نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ’ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اِن لوگوں کی آزادی چاہتے ہیں۔
Comments 2