شہریت ترمیمی قانون سی اے اے کا نفاذ اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی ہے
بھارت کی حکومت کی جانب سے شہریت کے ترمیمی قانون ’سی اے اے‘ کے نفاذ کے اعلان کے بعد ملک کے بعض علاقوں میں احتجاج ہو رہا ہے ۔ متنازعہ قانون کے خلاف دہلی یونیورسٹی کے طلبا نے بھی احتجاج کیا ۔احتجا ج کرنے پر دہلی پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا ۔
دہلی پولیس نے حساس مقامات پر بالخصوص شاہین باغ اور شمال مشرقی دہلی میں، جہاں فساد برپا ہوا تھا، اضافی پولیس فورس تعینات کی ہے۔
اسی طرح جامعہ جامعہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جامعہ کے وائس چانسلر کی جانب سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
کانگریس کی طلبہ تنظیم ’نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا‘ (این ایس یو آئی) اور ’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ایم ایس ایف) سے وابستہ طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس میں سی اے اے کے خلاف نعرے لگائے۔
وائس چانسلر پروفیسر اقبال حسین نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قسم کے احتجاج کو روکنے کے لیے سیکیورٹی کا سخت انتظام کیا گیا ہے۔
جب کہ این ایس یو آئی کی جامعہ شاخ نے ایک بیان میں کہا کہ سی اے اے کے نفاذ کے خلاف جامعہ میں احتجاج کیا گیا۔
اسکے علاوہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے بھی اظہار تشویش کیا ہے اور اسے امتیازی قانون قرار دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکہ 11 مارچ کو کئے جانے والے سی اے اے کے سرکاری اعلامیے پر تشویش میں مبتلا ہے۔ ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اس کا نفاذ کیسے ہوتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ترجمان نے ایک ای میل پیغام میں کہا کہ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام برادریوں کے ساتھ مساوی سلوک جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔
اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ایک ترجمان نے کہا "جیسا کہ ہم نے 2019 میں کہا تھا کہ سی اے اے بنیادی طور پر امتیازی قانون ہے اور بھارت پر جو بین الاقوامی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی خلاف ورزی ہے۔”
ترجمان کے مطابق اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس کے نفاذ کے ضابطے عالمی قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔
شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، مسیحیوں اور بدھ اور جین مت ماننے والوں اور دوسروں کو بھارت کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ملکوں، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک بھارت میں آئے ہوں۔
دوسری طرف افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے پہلی بار اس معاملے پر کوئی ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان اور اس کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے بھارت کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی قانون بلا امتیاز مذہب سب کے لیے ہونا چاہیے۔
انہوں نے وائر کے لیے ایک بیان میں کہا کہ یہ قانون سب پر نافذ ہونا چاہیے خواہ وہ مسلمان، ہندو سکھ کوئی بھی ہو۔
اسی کے ساتھ انہوں نے افغانستان میں اقلیتوں پر مظالم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی کی آزادی ہے اور وہاں کے قانون کے مطابق ان کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ جس طرح افغانستان میں ہندوؤں اور سکھوں پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے بھارت کی مسلم اقلیت پر بھی کوئی جبرنہیں ہوگا۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی کہا ہے کہ سی اے اے کا نفاذ مساوات اور مذہبی عدم امتیاز کی آئینی اقدار کے لیے ایک دھچکا ہے اور انسانی حقوق کے تعلق سے بھارت کی عالمی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ سی اے اے ایک متعصبانہ قانون ہے جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا جواز فراہم کرتا ہے اور اسے کبھی بھی نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق اس کا نفاذ بھارتی حکومت کی جانب سے ملک بھر کے عوام، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے احتجاج اور مخالفت کو نظر انداز کرنا ظاہر کرتا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے دسمبر 2019 میں حزبِ اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اس قانون کو منظور کرایا تھا۔
اس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہب کی بنیاد پر مبینہ ظلم و ستم کے شکار بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں، عیسائیوں اور بودھوں کو درخواست دینے پر بھارت کی شہریت دی جائے گی۔
جب 2019 میں یہ قانون منظور ہوا تھا تو اس کے خلاف جنوبی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے شاہین باغ کی خواتین نے ایک اہم سڑک پر تقریباً 100 دنوں تک دھرنا بھی دیا تھا۔
Comments 3