سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے مبارک ثانی کیس میں نظرثانی اپیل پر درستگی کی درخواست منظور کرتے ہوئے متنازع پیراگراف حذف کردیے۔
اسلام آباد؛ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی نظرثانی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے متنازع پیراگراف حذف کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کی جانب سے نظرثانی کیس فیصلے میں درستی کی درخواست منظور کرلی اور فیصلے کے متنازع پیراگراف حذف کردیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی درخواست پر نظر ثانی کرتے ہوئے مخصوص پیراگراف حذف کردیے گئے۔ سماعت کے دوران مفتی شیرمحمد مولانا فضل الرحمن اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے پارٹی صدر خالد مسعود سندھو پیش ہوئے۔
جبکہ مفتی تقی عثمانی ترکیہ میں ہونے کی وجہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے جبکہ مفتی منیب الرحمن کے نمائندہ پیش ہوئے۔ اسکے علاوہ ابوالخیر زبیراور جماعت اسلامی کے فرید احمد پراچہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے مبارک ثانی کیس میں اٹارنی جنرل کی درخواست پر عدالت میں موجود علماء کرام سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے مبارک ثانی کیس میں مفتی تقی عثمانی سے مکالمہ کیا ، مفتی تقی عثمانی نے عدالت کو سابقہ فیصلے میں ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کی۔
مفتی تقی عثمانی کے بعد عدالت نے مولانا فضل الرحمن کو دلائل کے کےلیے طلب کیا، مولانا فضل الرحمن نے کہ کئی نشستیں عدالت کی ہوئی ہیں اور اب نظرثانی کا معاملہ ہے، اس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ یہ نظرثانی نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ نظر ثالث ہے، علمائے کرام کی اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے، آپ کے فیصلے کے خلاف یہ آرا آئیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے بعد مفتی طیب قریشی اور اور صاحبزادہ ابوالخیر نے عدالت سے مکالمہ کیا ۔ صاحبزادہ ابوالخیر نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ سے نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42 حذف کرنے کی استدعا کردی۔
یاد رہے کہ مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے میں پنجاب حکومت نے بعض حصوں کو خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ درخواست 22 اگست کو سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔
پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے درخواست کو 24 جولائی کے فیصلے میں ترمیم کے لیے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کے سیکشن 561 اے کے تحت پیش کیا گیا جو سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 اور کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کے سیکشن 152 اور 153 کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
تین صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیراگراف 49 کو خارج کرنے اور تصحیح کی ضرورت ہے کیونکہ 24 جولائی کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کا 1985 کا مجیب الرحمن بمقابلہ حکومت پاکستان کا فیصلہ اور سپریم کورٹ کا ظہیر الدین بمقابلہ ریاست کیس میں 1993 کا فیصلہ پابند نظیریں تھیں اور یہ کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے 6 فروری کے فیصلے میں ان پابند نظیروں سے انحراف نہیں کیا ہے۔
جو آئین اور شریعت کو تسلیم نہیں کرتا ہم اسے پاکستانی تسلیم نہیں کرتے ؛ جنرل عاصم منیر
درخواست میں وضاحت کی گئی ہے کہ فیصلے کے کچھ دوسرے پیراگراف میں شامل کچھ مشاہدات اور نتائج سپریم کورٹ کی طرف سے بیان کردہ نظیروں کے برعکس ہونے کی وجہ سے ایک حادثاتی غلطی معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح نظرثانی درخواست میں فیصلے کے اس طرح کے حصوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت سے سپریم کورٹ سے رجوع کی درخواست کرنے والوں میں جامعہ دارلعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی، جامعہ نعیمیہ کراچی کے مفتی منیب الرحمن ، مولانا زاہدالرشدی، مفتی شیر محمد، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو، جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن، مرکزی جمیعت اہلحدیث کے سینیٹر ساجد میر، مولانا انوارالحق، صاحبزادہ ابوالخیر اور سید جواد علی نقوی شامل تھے۔