ہسپانوی مسلمانوں کو کئی دہائیاں اپنی شناخت اور مذہب چھپاکر زندگی بسر کرنی پڑی
جنوری 1492ء کی بات ہے کہ سپین کے آخری مسلمان بادشاہ سلطان محمد دی xii نے الحمراء محل کی چابیاں ملکہ ایزابیلا کے حوالے کر دیں۔ اور سپین پر سے مسلمانوں کی آٹھ سو سال کی حکمرانی کا سورج غروب ہو گیا ۔
لیکن اس وقت ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ ایزابیلا اس بات کا خیال رکھے گی۔ کہ سپین میں رہنے والے ہسپانوی مسلمان پوری آزادی سے اسلام پر عمل پیراء ہو پائیں گے ۔
لہٰذا ایزابیلا نے hernando de telavera نام کے ایک پادری کو تعینات کیا جس کے ہسپانوی مسلمانوں سے واقعی بڑے اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔ ہرنینڈو کی موت کے بعد نیا آرچ بشپ کارڈینل فرانسسکو سپین کے مسلمانوں پر ایک قہر بن کر ٹوٹا ۔
فرانسسکو نے ہسپانوی مسلمان امراء کو گرفتار کروانا شروع کر دیا اور رہائی کی صرف ایک ہی شرط ہوتی تھی کہ عیسائیت قبول کر لو۔ اور جب اس کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا تو ہر ایکشن کے ری ایکشن کی طرح اس رویے کا بھی ایک ری ایکشن آیا ۔
ہسپانوی مسلمانوں کی طرف سے بغاوت کی صورت میں لیکن یہی تو فرانسسکو چاہتا تھا ۔
اس نے ایزابیلا کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور اسے شکایت لگائی کہ میں ان لوگوں کو دین کی تبلیغ کر رہا ہوں۔ اور یہ لوگ مجھ سے لڑائیاں کر رہے ہیں ۔آپ فوراً سے پہلے ان کے مذہب کو سپین میں غیرقانونی قرار دیں۔ کیوں کہ کل کو یہ آپ کی بادشاہت کے لیے بھی ایک خطرہ بن جائیں گے اور ایزابیلا بھی فرانسسکو کی باتوں میں آ گئی ۔
بتاریخ 12 فروری 1502ء کو ایزابیلا نے پورے سپین میں اسلام ایک غیرقانونی مذہب قرار دے دیا ۔ لوگوں کو جوق در جوق عیسائی بنایا جانے لگا حتیٰ کہ فرانسسکو کو ایک جگہ سے آئے خط میں لکھا تھا کہ آج ہم نے ساٹھ ہزار ہسپانوی مسلمانوں کو عیسائی بنایا ہے۔ اور اس رفتار کے ساتھ چلنے کے بعد صرف اور صرف بیس سال کے اندر سپین میں آفیشلی ایک بھی ہسپانوی مسلمان باقی نہیں بچا تھا ۔
پھر آخر وہ مسلمان سپین چھوڑ کیوں نہیں گئے ؟
کیوں کہ سپین چھوڑ کر جانے کی فیس تھی سونے کے دس سکے۔ یعنی آج کے حساب سے تقریباً ساٹھ لاکھ پاکستانی روپے جو کہ ایک عام انسان کے لیے ایفورڈ کر پانا ،ناقابل تصور تھا ۔اور جو لوگ ایفورڈ کر سکتے تھے وہ بھی سپین نہیں چھوڑ پا رہے تھے کیوں کہ آس پاس کے تمام مسلمان ممالک کو ایزابیلا کی حکومت نے ممنوع قرار دے دیا تھا ۔
لہٰذا ہسپانوی مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہی حل بچتا تھا کہ بظاہر عیسائیت قبول کر لی جائے مگر دل میں اسلام ہی پر یقین رکھا جائے۔
احمدبن ابی جمعہ کا فتویٰ
مسلمان سے عیسائی بننے والے یہ لوگ ہسپانیہ کی تاریخ میں موریسکوز کہلائے۔ اور ان کے زخموں کا ازالہ کرنے کے لیے الجیریاء کے ایک مسلمان سکالر أحمد إبن أبی جمعہ الوہرانی نے ایک فتویٰ جاری کیا جسے اورہن فتویٰ کہتے ہیں ۔ اس فتوے میں انہوں نے موریسکوز کو وہ گائیڈلائینز دیں۔ کہ کیسے وہ عیسائیوں کو چکمہ دینے کے لیے عیسائی بن کر رہتے ہوئے بھی رازداری میں اسلام پر عمل پیراء ہو سکتے ہیں ۔
اس فتوے کا آغاز ہوتا ہے موریسکوز کے ساتھ ہمدردی کے اظہار سے کہ کیسے ہسپانوی مسلمانوں نے اس سخت آزمائش میں بھی اسلام پر قائم رہنے کو پسند کیا اور پھر یہ فتویٰ انہیں بتاتا ہے۔
کہ اگرچہ آپ کھل کر نماز روزۃ وغیرۃ پر تو عمل نہیں کر سکتے لیکن نماز آپ ایسے پڑھ سکتے ہیں ۔کہ جیسے اس کے سیکوئینس میں پہلے کھڑے ہو گئے ۔ پھر جھک گئے ، پھر بیٹھ گئے اور اشاروں سے سلام پھیر لیا وغیرہ ۔
اور بروقت نماز ادا کرنے کے بجائے قضاء کر کہ رات کو سبھی نمازیں اکٹھی پڑھ لیا کریں تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔
مزید یہ کہ پانی سے وضو کرنے کے بجائے کسی پاک درخت ، مٹی یا پتھر کو اپنی نظروں سے دیکھ کر تیمّم کا انداز اپنا لیا کریں ۔اور بجائے زکوٰۃ کا نام کھلے عام لینے کے خیرات کی صورت میں کسی فقیر کو دے دیا کریں ۔
اگر عیسائی آپ کو اپنے مجسموں کے سامنے جھکنے کا کہیں تو کوشش کریں۔ کہ یہ نوبت نہ ہی آئے ۔ لیکن اگر جان پر بن جائے تو جھک لیں لیکن دل میں صرف اور صرف اللہ کو سجدہ کرنے کا تصور کریں۔
اور اگر وہ آپ کو نبی کریم ﷺ کو برا بھلا کہنے کا کہیں تو آپ لوگ تیکنیک استعمال کریں۔ یعنی دوغلے معنوں میں بات کرنا ، یا پھر نبیؐ کا نام لیتے وقت الفاظ کا ہیرپھیر کر دیا کریں۔ سادہ الفاظ میں یہ فتویٰ اعمال کے بجائے نیت کے صاف اور مخلص ہونے پر زور دیتا ہے۔
إبن أبی جمعہ نے موریسکوز کو ’’یا غرباء‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے یعنی کہ وہ لوگ کہ جو رہتے تو دور دراز کی سرزمین میں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔
لیکن کیا موریسکوز اس مذہبی کھلی چھوٹ کو انجوائے کر رہے تھے ؟
نہیں آج بھی اس زمانے کی ایک ایسی کتاب موجود ہے جس کے لکھنے والے نے خود کو محض Arevalo کا ایک نوجوان کہہ کر بتایا ہے۔ اور اس کتاب میں اس نے اپنے کئی سفروں کے متعلق لکھا ہے جن کے دوران اس نے موریسکوز کو دیکھا تھا ۔
وہ لکھتا ہے کہ میں موریسکوز کے ایک ایسے گروہ سے ملا کہ جو چھپ کر نماز جمعہ کی تیاری کر رہا تھا ۔
وہ لکھتا ہے کہ میں نے ایک ایسی عورت دیکھی کہ جو ساری زندگی عیسائی بن کر خیرات کے پیسے اکٹھے کرتی رہی تھی تاکہ ایک دن وہ حج کرنے کے لیے جا سکے ۔
وہ لکھتا ہے کہ موریسکوز سب سے زیادہ دل ٹوٹ چکے ہوئے ہسپانوی مسلمان ہیں ۔ اور وہ لکھتا ہے کہ میرا دل سے ماننا ہے۔ کہ اسلام ہی ایک سچا دین ہے اور ایک دن وہ سپین میں دوبارہ غالب ضرور آئے گا ۔
اس نوجوان کی کتابوں کی علاوہ ہمیں کچھ قرآنی مصحف ، احادیث کی کتب ، انبیاء کے واقعات کی کتابیں بھی ملی ہیں۔ جنہیں موریسکوز نے چھاپا تھا اور یہ چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں ہیں ۔ شاید اس لیے کہ انہیں چھپانا زیادہ آسان ہوتا ہو گا ۔
لیکن ایک بات بڑی دلچسپ ہے کہ شاید موریسکوز رازداری سے اسلام پر عمل کرنے کے علاوہ اندر سے عیسائیت کو بھی انفلٹریٹ کرنے میں پوری طرح سرگرم ہوئے پڑے تھے ۔
مثلاً کوئی ستر سال پہلے سپین کی ایک غار سے سیسے کی 22 تختیاں ملی تھیں جن کے شروع میں لکھا ہے۔ کہ یہ تختیاں نیرو کے زمانے میں رہنے والے ایک عرب عیسائی نے لکھی تھیں ۔ اور تختیوں کے شروع میں عیسائیت کی بڑی تعریف ہوتی ہے جس کی وجہ سے یورپ میں ان تختیوں کے ملنے کی بہت خوشی منائی گئی تھی ۔
لیکن آگے چل کر ان تختیوں میں وہ باتیں شروع ہو جاتی ہیں جو خالصتاً اسلامی کانسیپٹس ہیں مثلاً یہ کہ خدا ایک ہے ۔ دوسرا کوئی نہیں ہے اور عیسیٰ ’’روح اللہ‘‘ ہیں جو کہ بیسکلی ایک قرآنی ریفرینس ہے۔ اور النساء ، الأنبیاء اور التحریم میں آیا ہے (النساء 04:171 ، الأنبیاء 21:91 ، التحریم 67:12)
سقوط خلافت عثمانیہ؛ اُمت مسلمہ کی سات سو سالہ خلافت کااختتام
اس لیے جب ان تختیوں کی مزید تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ تو کسی موریسکو نے لکھی تھیں جو کہ ایک بڑی دلچسپ بات ہے۔ کہ وہ لوگ کرش کیے جانے کے باوجود عیسائیوں کا مقابلہ کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے تھے ۔
مگر تمام عیسائی بھی زورزبردستی والے نہیں تھے بلکہ کچھ تو ہسپانوی مسلمانوں کا اتنا ساتھ دیتے تھے کہ عیسائی حکومت ان کے بھی خلاف ہو گئی ۔
مثلاً sancho de cardona جس نے اسلام بین ہونے کے باجود ہسپانوی مسلمانوں کے لیے ایک مسجد بنوائی اور اس میں اذان بھی دلوایا کرتا تھا۔ ۔یا پھر ویلنشیاء کا وائسرائے جس نے ہسپانوی مسلمانوں کے لیے ایک مدرسہ بھی بنوا دیا۔ اور اس کے ماتحت مسلمان کھل کر کہا کرتے تھے کہ ہم moors ہیں اور کوئی ہمیں کچھ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔
ان ہی چند عیسائی لارڈز کی محبت کو دیکھتے ہوئے بالآخر ہسپانوی بادشاہ فلپ دی تھرڈ نے موریسکوز کو سپین سے ہی نکل جانے کا کہہ دیا۔ اور ستمبر 1609ء میں تین لاکھ موریسکوز کو سپین سے نکال کر الجیریاء ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں بھیج دیا گیا۔ جہاں ہسپانوی مسلمانوں نے پھر ایک نئی شروعات کی ۔
Comments 2