مریم نواز؛اورپنجاب کی حکمران خواتین

مریم نواز قیام پاکستان کے بعدپنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی ٰ ہیں

پاکستان کا صوبہ پنجاب بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ قدیم آباد خطوں میں شمار ہوتا ہے ۔ تاہم ابھی  بھی یہ پاکستان کا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل صوبہ ہے ۔صوبہ پنجاب پربہت سارے حکمران گزرے ہیں ۔جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں۔ پنجاب کی حکمران خواتین میں قیام پاکستان کے بعد مریم نواز پہلی خاتون حکمران ہیں ۔

تاہم اس سے قبل بھی خواتین پنجاب  کی حکمران رہی ہیں۔ ان خواتین  میں رانی منگلا، رانی منگھو اور مہارانی جند کور شامل ہیں۔

رانی منگلا پنجاب کی پہلی خاتون حکمران

دستیاب تاریخی شواہد سے  پنجاب کی پہلی خاتون حکمران ہونے کا اعزاز رانی منگلا کو جاتاہے ۔رانی منگلا کون تھی ؟

رانی منگلا  آج سے 2300سال قبل یعنی326ق م میں سکندراعظم  کا دریائے جہلم کے کنارے پرمقابلہ کرنے والے راجہ پورس کی بیٹی تھی ۔ اس جنگ میں پورس کی شجاعت سے سکندر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے پورس کی حکمرانی بحال کر دی۔ مگر سکندر اور پور س کی لڑائی میں راجہ کا داماد راجہ اجے دت بھی ماراگیا۔ جوا س وقت جموں کے علاقے کا حکمران تھا ۔

بعدمیں راجہ پورس جو سکندراعظم سے تو بچ گیا مگر وہ سازشوں سے نہ بچ سکا۔ اور اسے کوٹلیہ چانکیہ نے ایک سازش سے مروا دیا۔ باپ اور خاوند کی وفات کےبعد بعد پورس کی بیٹی منگلا رانی نے اپنے باپ اور خاوند کی سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی۔

منگلا ایک خوبصورت، جنگجو اور اعلی ٰ اوصاف کی مالک رانی تھی۔ اس کی راجدھانی منگلا ڈیم کے کنارے قلعہ منگلا میں تھی جو آج بھی موجود ہے۔

رانی منگلا نے کاروبار حکومت احسن طریقے سے چلایا۔ حتیٰ کہ آج کم و بیش 2350 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا نام تاریخ سے محو نہیں ہوا اور اسے پنجاب کی معلوم تاریخ میں پہلی خاتون حکمران ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

 لیکن پھر اس کی زندگی کا رخ بدل گیا اور اس نے ایک جوگن کا روپ اختیار کر لیا۔ ذہنی سکون کے متلاشی لوگ دور دراز سے اس کے ہاں آتے اور دل کی تسکین پاتے۔ وہ روحانی نغمے گاتی اور لوگ وجد میں رقص کناں ہوتے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس نے منگل کا دن درشن کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اسی نسبت سے وہ منگلا دیوی کہلائی۔ آج بھی اس قلعے میں تین مندر موجود ہیں۔

البیرونی نے لکھا ہے کہ اس نے رانی منگلا کی مورتی اس قلعے میں موجود مندر میں دیکھی تھی۔ لیکن شاید لوگ منگلا رانی اور منگلا دیوی کو ایک ہی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دو مختلف کردار ہیں۔ منگلا دیوی جس کا ذکر مہا بھارت میں بھی ہے اس کا تعلق مالابار سے تھا اور ا س کا اصل نام پریمالا تھا، جو جوگن بنی اور ہندو مت میں اسے دیوی کا درجہ ملا۔

رانی دیوی کے نام پر بھارت کا ایک شہر منگلورو بھی ہے جس کا سابق نام بنگلور تھا۔

رانی منگھو پنجاب کی دوسر ی خاتون حکمران

آج سے ایک ہزار سال قبل پنجاب کے پوٹھوہاری علاقے میں گکھڑ قبیلے کی حکمرانی رہی ہے۔ پوٹھوہاری علاقے کی سرحدیں دریائے سندھ اورجہلم کے درمیان سمجھی جاتی ہیں۔

بعض ادوار میں تو ایسے گکھڑ حکمران بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنت لاہور تک پھیلا دی تھی۔ گکھڑ خود کو کیان ایران کے شاہی خاندان سے موسوم کرتے ہیں جو سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہمرکاب آئے تھے اور پھر یہیں رچ بس گئے۔

تاریخ فرشتہ اور دوسری تاریخی کتب میں کے مورخین کے مطابق گکھڑ مقامی قبیلہ تھا ۔ جو پورس کے ساتھ سکندر کے خلاف لڑنے کے لیے ہمالیہ کے اوپر کے علاقوں سے آیا تھا اور پھر یہیں آبادہوگیا۔

گکھڑ کسی بھی حملہ آور کو دہلی تک پہنچانے کے لیے مدد فراہم کرتے تھے ۔ انہی گکھڑوں میں ایک سلطان راجڑ خان تھے جنہوں نے دریائے جہلم کے کنارے دان گلی کے مقام پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر قلعہ بنایا تھا جس کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسی راجڑ خان کی اولاد میں سلطان اللہ داد خان گزرے ہیں جن کی شادی ریاست مکھیالہ کے جنجوعہ سردار کی بیٹی رانی منگھو سے ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کہ کسی لڑائی میں بہت زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ سے راجہ اللہ داد خان کا جی حکمرانی سے اچاٹ ہو گیا ۔

تو انہوں نے اپنے بیٹے سلطان دلاور خان کے نابالغ ہونے کی وجہ سے عنانِ اقتدار اپنی بیوی رانی منگھو کے سپرد کر دیا اور خود جنگلوں میں نکل گئے۔

رانی منگھو نے خوش اسلوبی سے کاروبار ِحکومت چلایا اور رعایا کے لیے کئی فلاحی منصوبے شروع کیے۔ زراعت کے فروغ کے لیے چھوٹے چھوٹے بند اور نہریں تعمیر کروائیں، پانی کے کنویں کھدوائے، دان گلی اور رام کوٹ قلعوں کی تعمیرِ نو کروائی اور اپنے زیر ِاثر علاقے میں امن و انصاف کو رواج دیا۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ رانی منگھو کی ایک بیٹی کی شادی اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے اکبر ثانی کے ساتھ ہوئی تھی۔

ستی قوم کا ایک سردار ہیبت خان رانی منگھو کی مخالفت عورت ہونے کی وجہ سے کرتا تھا۔ جس پر رانی منگھو نے اسے قلعے کی دیوار میں چنوا دیا۔منگھو رانی تاریخ کی وہ  گکھڑ رانی تھیں جنہوں نے شمالی پنجاب پر حکمرانی کی۔

مہارانی جند کور پنجاب کی تیسری خاتون حکمران

مہارانی جند کور پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی بیوی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت کی سرحدیں کابل سے دہلی تک تھیں انہوں نے 20 شادیاں کر رکھی تھیں۔ آخری شادی 55 سال کی عمر میں 1835 میں گوجرانوالہ کی 18 سالہ جند کور سے کی جو اپنی خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ 1838 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال سے ایک سال پہلے جند کور سے ان کا ایک بیٹا دلیپ سنگھ پیدا ہوا۔

1843 میں جب دلیپ سنگھ صرف پانچ سال کا تھا تو اسے تخت لاہور پر بٹھا دیا گیا یوں عملاً اقتدار مہارنی جند کور کے پا س آگیا۔ وہ دو سال تک پنجاب کی ایسی حکمران رہیں جن کا ذکر انگریز بھی ایک بہادر اور نڈر جنگجو کے طور پر کرتا تھا۔ مہارانی جند کورکو جب اقتدار ملا اس وقت پنجاب محلاتی سازشوں میں گھرا ہوا تھا۔ فوج شدید تنزلی کا شکار تھی اور خزانہ خالی ہو چکا تھا۔

عزیز الدین احمد اپنی کتاب ’پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘ میں لکھتے ہیں کہ مہارانی جند کور کو اس بحران کا ایک ہی حل نظر آیا کہ انگریزوں کے خلاف فوج کشی کرے۔ تاکہ پنجابی فوج اور عوام ایک دشمن کے خلاف متحد ہو جائے جو اس کی سرحدوں پر کسی مناسب موقعے کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔

’مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر خالصہ فوج نے عہد کیا کہ وہ انگریز کو نیست و نابود کر کے دم لے گی۔ 11 دسمبر 1845 کو پنجاب کی فوج دریائے ستلج عبور کر کے انگریزی علاقے میں داخل ہو گئی۔ فوج کی اعلی ٰ قیادت انگریزوں سے ملی ہوئی تھی اس لیے شکست کے باوجود اس نے انگریزی فوج کے دو جرنیل مار دیے۔‘

پنجابی فوج کا دوسرا معرکہ فیروز پور میں ہوا جہاں لارڈ ہارڈنگ انگریزی فوج کی قیادت کر رہا تھا۔ اس نے لکھا کہ ’ہندوستان میں انگریزوں کا اس سے پہلے کسی نے اتنا سخت مقابلہ نہیں کیا۔‘

اس لڑائی میں بھی ایک بریگیڈیئر اور میجر مارے گئے۔ تیسرے معرکے میں میجر جنرل سر رابرٹ ڈک جان مارا گیا مگر جنرل تیجا سنگھ کی غداری کی وجہ سے پنجابی فوج کے آٹھ ہزار سپاہی مارے گئے۔ اور انگریز فوج 12 فروری 1846 کو پنجاب میں داخل ہو گئی۔

آٹھ مارچ کو انگریز فوج اور لاہور دربار میں معاہدہ ہو گیا جس کے تحت ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان کے بدلے انگریز نے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو خود مختار حکمران، اس کی ماں مہارانی جند کور کو ایجنٹ اور لال سنگھ کو وزیر تسلیم کر لیا۔

پنجاب کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے تاوان کے طور پر انگریز نے ستلج اور بیاس کے درمیان کا دو آبہ اور کشمیر لے لیا اور کشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو خود مختار حکمران بنا دیا۔

ادھر انگریز نے پنجاب میں قیام کی عبوری مدت میں توسیع کی غرض سے لاہور میں دربار منعقد کیا۔ جس میں پنجاب کے 52 سرداروں نے دستخط کیے اور مہارانی جنداں کے اختیارات انگریز ریزیڈنٹ کو سونپ دیے گئے۔

طے پایا کہ جب مہاراجہ دلیپ سنگھ 1854 میں 16 سال کا ہو جائے گا تو اسے اقتدار سونپ دیا جائے گا۔

حکمران

گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی راہ میں مہارانی جند کور کو خطرہ محسوس کرتے تھے۔ اس لیے اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ انگریز سرکار کے خلاف سازش کر رہی ہے جس کی پاداش میں اسے قید کر لیا گیا۔

مہارانی جند کور پر ہونے والے مظالم کی وجہ سے پنجاب کے عوام مشتعل ہو گئے اور انہوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کر دی جو ملتان، گجرات اور ہزارہ تک پھیل گئی۔ انگریز فوج کو چلیانوالہ میں شرمناک شکست ہوئی مگر گجرات میں انہیں فتح ملی۔ یوں انگریزوں کو پنجاب پر قبضے کا بہانہ مل گیا۔

پنجابی فوج کے آخری جرنیل شیر سنگھ نے 14 مارچ 1848 کو مانکیالہ راولپنڈی کے مقام پر ہتھیار پھینک دیے۔ جس پر ایک بوڑھے سکھ سردار نے اپنی تلوار کو بوسہ دیتے ہوئے جنرل گلبرٹ کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’رنجیت سنگھ اصل میں آج مرا ہے۔‘

مہارانی جند کور جیل سے فرار ہو کر 1849 میں نیپال پہنچ گئیں۔ انگریزوں نے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو تعلیم و تربیت کے لیے لندن بھیج دیا جہاں اس نے عیسائیت قبول کر لی۔

1861 میں دلیپ سنگھ واپس آ کر کلکتہ میں اپنی ماں سے ملا۔ اسے اپنی ماں کے ساتھ لندن واپسی کی اجازت مل گئی۔ لندن کے حکام مہارانی جندکور کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اسے خطرہ سمجھتے تھے اور واپس ہندوستان بھجوانا چاہتے تھے۔ جبکہ ہندوستان کی انگریز انتظامیہ چاہتی تھی کہ مہارانی لندن میں ہی رہے تاکہ یہاں وہ کسی نئی بغاوت کی وجہ نہ بن جائے۔ اسی کشمکش میں یکم اگست 1863 کو اس کا لندن میں انتقال ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ ایک ایسا فتویٰ  جس نے ہزاروں ہسپانوی مسلمانوں کی جان بچائی

Exit mobile version