سابقہ وزیراعظم حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اس کی ذیلی تنظیموں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کررکھی تھی
ڈھاکہ؛ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے جماعت اسلامی بنگال سے پابندی ہٹالی۔ عبوری حکومت کے مطابق جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کسی بھی دہشت گرد سرگرمی میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔ غیرملکی خبررساں ادارے روئیٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے ایک قانون کے تحت جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جو بعد ازاں پرتشدد مظاہروں اور پھر بغاوت میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے حسینہ واجد 5 اگست کو استعفیٰ دے کر بھارت فرار ہونے پر مجبور ہوئیں۔
جبکہ انکے ملک سے فرار ہونے کے بعد قائم کی گئی عبوری حکومت نے گزشتہ روز نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے جماعت اسالمی پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ عبوری حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق جماعت اسلامی بنگال اور اس سے وابستہ افراد کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملا۔
واضح رہے کہ سابقہ بنگلہ دیشی حکومت نے یکم اگست 2024 کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کے تحت ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اس کے طلبہ ونگ بنگلہ دیش اسلامی چھاترا شبیر کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
پاکستان میں موجود بنگلہ دیشی کرکٹر شکیب الحسن پر قتل کا مقدمہ درج
جبکہ اس سے قبل 2013 میں ایک عدالتی فیصلے کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بنگلہ دیش کے سیکولر آئین سے متصادم ہے۔