رکشہ ڈرائیورز نے پریس کلب لاہور کے باہر اپنے بجلی کی بڑھتی قیمت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا
لاہور؛ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور ایل پی جی مافیا کے راج کے خلاف لاہور کے رکشہ ڈرائیور سراپا احتجاج بن گئے۔ ملی رکشہ یونین کےزیر اہتمام سینکڑوں رکشہ ڈرائیوروں نے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بجلی کی بڑھتی ہوئے قیمتوں نے مزدور طبقہ کی زندگی کو مشکلات سے مزید دوچار کردیا ہے۔
احتجاجی مظاہرہ میں سول سوسائٹی، تاجر برادری اور عوام کی بڑی تعداد نےشرکت کی۔ جبکہ پاکستان مرکزی مسلم لاہور کے جنرل سیکرٹری مزمل اقبال ہاشمی اور صدر ملی رکشہ یونین رانا شمشاد احمد نے خطاب کیا۔
جنرل سیکرٹری مرکزی مسلم لیگ لاہور ڈاکٹر مزمل اقبال ہاشمی کا کہنا تھا کہ حکومت کی نااہلی کا پول کھل چکا ہے جبکہ حکومت نے پوری قوم کو آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر چھوڑدیا ہے۔ جبکہ صدر ملی رکشہ یونین رانا شمشاد کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں صرف حکمران طبقے کی معاشی حالت بہتر ہورہی ہےجو کبھی پانامہ اور کبھی دبئی لیکس میں منظر عام پر آتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں مالی سال 2024-2025 کےلیے بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اخراجات کو مکمل کرنے کےلیے حکومت نےآمدنی کو بڑھانے کےلیے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی ہے۔ کئی اشیاء مہنگی ہوگئی اور کئی اشیاء پر سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔
موجودہ بجٹ جوکہ آج سے لاگو ہوگا اس بجٹ میں تمام تر بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے جسے پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں اور تاجر برادریوں اور عوام کی جانب سے رد کردیا گیا ہے۔ تاہم ابھی آئی ایم ایف نےمزید ٹیکسز بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد اُمید کی جارہی ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی اور اشیاء خورد ونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوجائیں گی۔
پی آئی اے برطانیہ کےلیے ہفتہ وار 22 پروازیں بھیجے گی
اس متنازعہ بجٹ پر عوام تاحال سراپا احتجاج ہیں، تاہم ابھی عوام کو کسی ریلیف کےملنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یاد رہے کہ مالی بجٹ 2024-2025 میں مالی خسارہ 8500 ارب ہے جبکہ کل بجٹ 18877 روپے ہے۔
خسارے کے باوجود حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے ہیں۔ تاہم اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر انٹرسٹ (سود) کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔ دفاع کیلئے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت ایف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کرے گی لیکن اس میں سے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے۔ نان ٹیکس محصولات وغیرہ کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی۔ لہذا خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔
جبکہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کےلیے محصولات میں اضافہ کیا گیا ہے۔