دادا ،باپ کے بعد بیٹا بھی قتل ،ایسی دشمنی میں جس میں نسلوں میں سفر کیا
گزشتہ روز لاہور کے معروف ٹیپوٹرکاں والے کے بیٹے امیربالاج ٹیپو کو قتل کردیا گیا۔خاندانی دشمنی کی بنا پر پہلے انکے والد ٹیپوٹرکاں والا اور اس سے قبل اسکے دادا بالا ٹرکاں والے کو بھی قتل کردیا گیاتھا۔
اس سے قبل 2010 میں عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کو دبئی سے واپسی پر لاہور ایئر پورٹ پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔جبکہ حال ہی میں امیر بالاج ٹیپو اپنے روایتی حفاظتی حصار کے ساتھ لاہور کے ایک پوش علاقے کی نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں شریک تھے۔ اسی تقریب میں ایک شخص فوٹوگرافر کے روپ میں موجود تھا جس نے اپنے لباس میں بندوق چھپا رکھی تھی۔
مقامی پولیس کے مطابق اس شخص نے کئی دفعہ دوران تقریب بالاج کے قریب جانے کی کوشش کی۔ تاہم ان کے محافظوں نے اس کو پیچھے دھکیل دیا۔ پھر ایک موقع پر فوٹوگرافر کا روپ دھارے اس شخص کو بالاج کے قریب پہنچنے کا موقع مل گیا۔
قریب پہنچتے ہی لباس میں چھپایا اسلحہ نکال کر بالاج پر فائرنگ کردی ۔جبکہ بالاج کے محافظوں نے جوابی فائرنگ کی جس سے حملہ آور موقع پر ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس سے قبل اس کی چلائی ہوئی لگ بھگ چار گولیاں بالاج کے جسم میں پیوست ہو چکی تھیں۔
بالاج کو زخمی حالت میں جناح ہسپتال لاہور میں منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے ۔جبکہ انکے قتل کا مقدمہ انکے بھائی امیر مصعب نے خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ پر الزام عائد کرتے ہوئے کروایا۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں امیرمصعب کا کہنا تھا کہ کہ ان کے بھائی پر تین سے چار نامعلوم افراد نے گولیاں چلائیں۔ گولیاں چلانے سے پہلے انھوں نے للکار کر کہا کہ تمہیں ’طیفی بٹ اور گوگی بٹ سے دشمنی کا مزہ چکھاتے ہیں۔جبکہ پولیس کا کہنا ہے انکی تلاش جاری ہے ۔جبکہ بالاج پر حملہ کرنےو الا شوٹر طیفی بٹ کا ملازم ہے۔
ٹرکاں والا خاندان کون ہے ؟؟
ٹرکاں والا کے نام سے مشہور خاندان بنیادی طور کشمیری ہیں اور ان میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں۔ یہ لاہور کے شاہ عالم گیٹ کے باہر کے علاقے جسے عرف عام میں شاہ عالمی کہا جاتا ہے وہاں آباد ہے۔
ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع کاروبار ہے اور یہیں سے غالباً ان کے ناموں کے ساتھ ’ٹرکاں والا‘ کا اضافہ ہوا۔
امیر بالاج ٹیپو کے دادا بِلا ٹرکاں والا کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان میں پاکستان کے نامی گرامی پہلوان نبی بخش گزرے ہیں۔
’ٹیپو ٹرکاں والا کے دو ماموں بھی مشہور پہلوان ہیں جن کا نام خالد محمود عرف بھائی پہلوان اور سلطان پہلوان ہیں۔ یہ دونوں اپنے اکھاڑے بھی چلاتے تھے۔ ان میں سے سلطان پہلوان نے خود کو مذہبی سرگرمیوں تک محدود کر لیا ہے جبکہ بھائی پہلوان اب بھی کاروبار دیکھتے ہیں۔‘
بھائی پہلوان کا اکھاڑہ اب بھی موجود ہے اور چلتا ہے۔ پہلوانوں کے اس خاندان کا نام گڈز ٹرانسپورٹ کے ساتھ جڑا ہے جس میں ان کے درجنوں کی تعداد میں ٹرک پاکستان کے طول و عرض میں چلتے ہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ کرتے ہیں۔
لاہور کی شاہ عالم یا شالمی مارکیٹ میں بھی اس خاندان کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔ یہیں قریب ہی بِلا ٹرکاں والا کا ڈیرہ بھی ہوا کرتا تھا جو نسلوں میں آگے چلتا چلتا آج بھی موجود ہے۔
’بِلا ٹرکاں والا کی آشنائی اُس دور کے اندرون لاہور کے ’انڈر ورلڈ‘ سے اس طرح ہوئی کہ ان کے ڈیرے پر اشتہاری پناہ لیتے تھے اور پھر ان اشتہاریوں کو وہ اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔‘
لیکن زیادہ تر یہ کام معمولی نوعیت کے جرائم تھے جن میں بیشتر دکانوں پر قبضہ کرنے جیسے معاملات ہوتے تھے۔ یا پھر ’بدمعاشی اور لڑائی جھگڑے‘ وغیرہ کے واقعات ہوتے تھے۔ تاہم بڑھتے ہوئے یہ کام یہاں تک پہنچا کہ ان کے آدمیوں کے ہاتھوں ایک قتل ہو گیا۔
اس واقعے میں بِلا ٹرکاں والا کے جوان بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ اس قتل اور اس سے جڑے بعد کے واقعات نے ٹرکاں والا خاندان کے لیے زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا لیکن اس کے چند حقائق کے حوالے سے مخلتف آرا پائی جاتی ہیں۔
صحافی ماجد نظامی کے مطابق یہ ایک قتل کا واقعہ تھا اور اس کے مقدمے میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ بلا ٹرکاں والا کے دو بااعتماد ملازم تھے جن کا نام حنیف بابا اور شفیق بابا بتائے جاتے ہیں۔
بِلا ٹرکاں والا نے قتل کے مقدمے میں سے اپنے بیٹے کا نام نکلوا کر حنیف کا نام دے دیا ،اس وعدے پر کہ وہ بعد میں اس کو رہا کروا لیں گے۔ لیکن حنیف سزا پا کر جیل چلا گیا۔
جنگ اور جیو گروپ سے منسلک لاہور کے صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ایک خاتون سے زیادتی کا واقعہ تھا جس میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے کا نام آ رہا تھا اور مقدمے میں سے اس کو نکلوا کر حنیف کا نام ڈلوایا گیا۔ اس کو سات سال کی سزا ہوئی اور وہ جیل چلا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ جب سزا پوری کر کے جیل سے واپس آیا تو اس نے اور شفیق بابا نے مل کر بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں اس بات کا غصہ تھا کہ بلا نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ان کو پھنسا دیا اور رہا بھی نہیں کروایا۔‘
جبکہ صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ حنیف بابا اور شفیق بابا کا باپ عید محمد، بِلا ٹرکاں والا کا پرانا ملازم اور ساتھی تھا جس کے ریٹائر ہونے پر یہ دونوں بھائی اس کی جگہ ان کے پاس ملازم ہوئے تھے اور ان کے گن مین ہوتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے پہلے بِلا کو مارنے کی ایک دو کوششیں کیں جو ناکام ہو گئیں اور بالآخر ایک دن اس کے ڈیرے پر ہی وہ اس کو مارنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
بِلا کا قتل کر کے وہ دونوں فرار ہو گئے۔
دشمنی کی ابتداء اور ٹیپو ٹرکاں والا
ٹرکاں والا خاندان کے لیے اندرون لاہور کے مبینہ ’انڈر ورلڈ‘ کے چند بڑے کرداروں سے دشمنی کی بنیاد بِلا ٹرکاں والا کے اسی قتل کے بعد پڑی۔
بلا کے قاتلوں حنیف اور شفیق نے بِلا کو قتل کرنے کے بعد لاہور کے علاقے گوالمنڈی کے ’کاروباری‘ طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے پاس جا کر پناہ لے لی۔
صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرفی گوگی بٹ اس زمانے میں اندرون لاہور کے انڈر ورلڈ کے بڑے نام تھے۔
’وہ خود کو کاروباری کہلاتے تھے جبکہ زیادہ تر ان کا تعلق زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے اور بدمعاشی سے جوڑا جاتا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں یہ دونوں بھی اپنے ڈیروں پر اشتہاریوں اور جرائم پیشہ افراد کو پناہ دیتے تھے۔ اور پھر انھیں ہی اپنے کاموں کے لیے استعمال بھی کرتے تھے۔ صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ دونوں پھوپھی زاد بھائی ہیں
’یہ دونوں پولیس کو زیادہ تر زمینوں پر ناجائز قبضوں اور بھتّہ وغیرہ کے مقدمات میں مطلوب رہتے تھے۔ یہ اشتہاری مجرموں کو پناہ بھی دیتے تھے اور مجرم بھی ان کے لیے کام کرتے تھے۔ انڈرورلڈ میں ان لڑائیوں میں بھی ان اشتہاریوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘
صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ جب سنہ 1994 میں بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کے بعد حنیف اور شفیق نے ان کے پاس پناہ لی تو وہاں سے ٹیپو ٹرکاں والا کی ان سے خاندانی دشمنی کی بنیاد پڑی۔
’ٹیپو اس معاملے میں ہوشیار تھا وہ خود سامنے نہیں آیا لیکن اس نے ان دونوں (حنیف اور شفیق) کو مروا دیا۔ ان دونوں گینگ کے لوگ پولیس کو ایک دوسرے کے خلاف مخبریاں بھی دیتے تھے۔‘
ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا نے ’مل ملا کر پولیس مقابلے میں ان دونوں کو مروایا۔‘
صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ ایک تاثر ضرور موجود ہے کہ ’پولیس مقابلے‘ میں مارے جانے کے پیچھے ٹیپو ٹرکاں والا کا ہاتھ تھا۔ تاہم ’کیونکہ اس واقعے کو ایک پولیس مقابلہ قرار دیا گیا تھا تو کہا تو یہی جائے گا کہ ان کو پولیس نے مارا۔‘
اس کے بعد ٹیپو ٹرکاں والا پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بچتے رہے۔ ان حملوں میں بھی مختلف اشتہاری اور ’کرائے کے شوٹر‘ استعمال ہوتے تھے تاہم تحقیقات کا تانہ بانہ طیفی اور گوگی بٹ کے گینگ سے جا ملتا۔
ٹیپو کی موت اور اگلی نسل
صحافی ماجد نظامی کے مطابق کئی قاتلانہ حملوں میں بچ جانے کے بعد ایک مرتبہ سنہ 2003 میں ٹیپو ٹرکاں والا پر بڑا حملہ لاہور کچہری کے علاقے میں ہوا۔ اس حملے میں ان کے پانچ محافظ مارے گئے۔ وہ خود شدید زخمی ہو گئے اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس واقعے کا الزام بھی ٹیپو ٹرکاں والا نے طیفی اور گوگی بٹ پر عائد کیا۔
وہ کہتے ہیں ’اس واقعے کے بعد ٹیپو نے اپنے خاندان کو دبئی منتقل کر دیا اور خود بھی کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔‘
صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا کا کاروبار کیونکہ لاہور ہی میں تھا اس لیے وہ اس کو مکمل طور پر چھوڑ نہیں سکتے تھے۔
’ان کے کئی سینکڑوں ٹرک چلتے تھے اور لاہور میں ان کی اربوں روپے مالیت کی پراپرٹی تھی وہ اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے تھے۔‘
تاہم وہ دبئی اپنی فیملی سے ملنے جاتے رہتے تھے اور کچھ عرصہ گزار کر واپس لاہور آ جاتے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب وہ دبئی سے لاہور واپس پہنچے تو ایئرپورٹ کے باہر ایک مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔
انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ان کی موت ہو گئی۔ ان کی موت کا سن کر ان کا خاندان بھی دبئی سے واپس لاہور پہنچ گیا۔ ان میں ان کے سب سے بڑے بیٹے امیر بالاج ٹیپو، ان کے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن شامل تھیں۔
بالاج کی عمر اس وقت محض 18 سال تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دبئی ہی میں گزارا تھا جہاں وہ اور اب ان کے باقی بہن بھائی اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تاہم باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو ’ڈیرہ‘ سنبھالنا تھا۔
بصحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا کا زمانہ وہ تھا جس میں ٹرکاں والا گینگ نے انڈر ورلڈ میں بہت ’عروج‘ دیکھا۔
’وہ خود سامنے نہیں آتے تھے لیکن گینگ وار کے بہت سے کردار ان کے لیے کام کرتے تھے۔ اسی طرح پولیس میں بھی ان کے تعلقات اچھے بن گئے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں گینگوں میں ایک فرق یہ تھا کہ بٹ گینگ کے بڑے نام قتل نہیں ہوئے جبکہ ٹرکاں والا کے بڑے قتل ہوتے رہے۔
’بٹ گینگ شاطر تھا وہ ان لوگوں کو ٹرکاں والا کے خلاف استعمال کرتے تھے جن کی ان سے کوئی ناچاقی یا دشمنی ہوتی تھی۔‘
جیسا کہ ٹیپو ٹرکاں والا کو قتل کرنے والے حملہ آور نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے ٹیپو سے اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لیا تھا۔ دونوں گینگوں کی دشمنی اور لڑائی میں بہت سے ثانوی کردار بھی سامنے آئے۔
ان میں ہمایوں گجر، بھولا سنیارا، خالد چٹا، مبین بٹ، بھیلا بٹ وغیرہ محض چند نمایاں نام ہیں۔ ان میں زیادہ تر یا تو آپس کی لڑائی میں مارے گئے یا پھر ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہوئے۔
تاہم ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ٹرکاں والا کی تیسری نسل یعنی بالاج ٹیپو مخلتف قسم کے آدمی تھے۔
’وہ پڑھا لکھا تھا اور اس کی پرورش بھی اس ماحول سے باہر ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں سننے میں آیا کہ وہ چاہتا تھا کہ دشمنیوں کا خاتمہ کیا جائے مگر دشمنیاں اس کو وراثت میں ملی تھیں۔‘
دشمنی کے خاتمے کی خواہش
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی فرخ شہباز وڑائچ نے سنہ 2020 میں امیر بالاج ٹیپو کا ان کے ڈیرے پر انٹرویو کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں بالاج ٹیپو سے کسی دوست نے ملوایا تھا اور پھر ان کی بات چیت بڑھ گئی۔
وہ کہتے ہیں بالاج ٹیپو میڈیا وغیرہ پر سامنے نہیں آتے تھے اور زیادہ نمایاں نہیں ہونا چاہتے تھے اس لیے وہ انٹرویو دینے کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے۔ تاہم کچھ سال کے بعد انھوں نے ایک موقعے پر فرخ شہباز کو انٹرویو دینے کی حامی بھری۔
’میں نے جس طرح ان کے بارے میں سن رکھا تھا تو میں جب ان سے ملا تو مجھے وہ قدرے مخلتف شخصیت کے آدمی لگے۔ ان کے خیالات ذرا مختلف تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ دشمنیوں کی وجہ سے ایک گھٹن کی زندگی گزاریں لیکن ان کے خیال میں یہ ان کو وراثت میں ملی تھی۔‘
فرخ شہباز وڑائچ کہتے ہیں کہ وہ جب بالاج ٹیپو کے ڈیرے پر گئے تو کئی مقامات پر ان کی تلاشی لی گئی۔
ان کی حویلی کے اندر ایک چبوترا نما اونچا سا مقام بنا تھا جہاں ان کی بالاج سے ملاقات ہوئی تاہم اس کمرے کے باہر تعینات محافظوں نے ان کا موبائل وغیرہ رکھ لیا تھا۔
صحافی فرخ شہباز وڑائچ کہتے ہیں کہ ’بالاج نے مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ تمام دشمنیاں ختم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ آگے اپنے بچوں کو منتقل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی یہ کر نہیں پا رہے تھے۔‘
اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد لوگ بھی ان کو ایسا نہیں کرنے دے رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ بالاج نے ان کو بتایا تھا کہ وہ جب کوئی دشمنی ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ارد گرد قریبی لوگوں ہی میں سے کچھ لوگ سامنے آ جاتے ہیں۔
’ان لوگوں میں سے کسی نہ کسی کا کوئی رشتہ دار قتل ہوا ہوتا ہے یا اس کی پرانی دشمنی ہوتی ہے اس لیے بالاج ٹیپو کے مطابق یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان لوگوں کے ساتھ صلح کی جائے۔‘
دشمنی کتنی سنگین تھی؟
بِلا ٹرکاں والا کے قتل کے بعد ان کے بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا اور ان کے ’گینگ‘ نے براہ راست مخالف گینگ کے بڑوں، طیفی اور گوگی بٹ وغیرہ کو نہیں مارا۔
تو پھر وہ پہلے خود ٹیپو ٹرکاں والا اور پھر ان کے بیٹے بالاج ٹیپو کو مارنے کے در پے کیوں تھے۔
صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا نے اور ان کے مرنے کے بعد بھی گوگی بٹ اور طیفی بٹ وغیرہ کو مارنے کے لیے براہ راست کوششیں کی گئیں۔
’ایک مرتبہ ان کی حویلی پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔ اور ایک مرتبہ سنہ 2012 میں بھولا گڈی نامی ایک گینگسٹر کہیں علاقہ غیر وغیرہ سے راکٹ لانچر لے آیا تھا اور ان کا ارادہ طیفی بٹ وغیرہ کے ڈیرے کو ہی اڑا دینے کا تھا لیکن وہ پہلے ہی پولیس نے پکڑ لیا۔‘
اس لیے ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ’بٹ گینگ‘ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ٹیپو ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہ نہیں مان سکتے تھے کہ بالاج ان کے ساتھ مخلصانہ طور پر دشمنی ختم کر سکتا ہے۔
تاہم صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ بالاج ٹیپو نے سنہ 2016 میں بہت سے معاملات میں جہاں بٹ گینگ نے زمینوں پر قبضے کیے یا کرنے کی کوشش کی تھی ان کے سامنے کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی۔
’تو اس وقت اس کو پیغام بھجوایا گیا تھا کہ ہمارے راستے میں مت آو ورنہ تمہیں راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ بالاج کا قتل اسی نوعیت کی دھمکیوں اور دشمنیوں کی ایک کڑی ہے۔
امیر بالاج ٹیپو نے بہت سی دشمنیاں ختم بھی کیں تھیں، جہاں ان کی کئی پرانے دشمنوں سے صلح ہو گئی تھی تاہم بٹ گینگ سے وہ صلح نہیں کر پائے تھے۔
صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس قتل کے بعد ان دونوں گینگز کے درمیان دشمنی کو مزید ہوا ملے گی اور مزید لوگ اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
تاہم صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ٹیپو ٹرکاں والا کے خاندان کے لیے اس دشمنی کو آگے بڑھانا اب مشکل ہو جائے گا۔
اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ بالاج کے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک وکیل بن چکے ہیں جبکہ دوسرے ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اس قسم کے معاملات کو چلانا مشکل ہو گا۔