اپنے منفرد لب ولہجے کی وجہ سے پروین شاکر جلد مشہور ہونے والی شاعرہ تھی
پروین شاکراپنے منفرد لہجہ اورانداز کی وجہ سے بہت جلد مشہور ہونے والی شاعرہ تھیں۔ آپ 24نومبر 1952کو کراچی میں پیداہوئیں ۔والد کانام سیدشاکرحسن تھا ۔آپ کاخاندان ایک علمی خاندان تھا۔آپ کے خاندان میں کئی نامور شعراء پیدا ہوئے جن میں بہارحسین آبادی سب سے زیادہ مشہورہیں۔
پروین شاکر کم عمری میں ہی اشعار کہنا شروع کردیے تھے ۔آپ کے پہلے استاد آپ کے نانا حسن عسکری تھے جوکہ اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے ۔ انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین شاکر ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہتی تھیں۔
آپ نےانگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔
آپ نے 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔
آپ نے 1990میں ٹرینٹی کالج امریکاسے مزید تعلیم حاصل کی اور1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جو بدقسمتی سے زیادہ دیرتک نہ چل سکی اوربالآخر طلاق ہوگئ۔
آپ اردو زبان کی منفرد شاعرہ تھیں۔آپ نے نسوانی جذبات کوبڑے احسن طریقے سے بیان کیاہے۔شاعری میں آپکواحمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔آپ نے اپنی شاعری میں ماں کے جذبات،ورکنگ وومن کے مسائل اورنوجوان دوشیزہ کے جذبات کواحسن انداز سے قلم بندکیاہے۔ پروین شاکر کی شاعری کامرکزی خیال عورت اورمحبت تھا۔
آ پ 26دسمبر 1994 کو اسلام آبادمیں ایک ٹریفک حادثہ میں بیالیس سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کوجاملی ۔آپ کواسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپردخاک کیاگیا ۔
آپ کی قبر پر آ پ ہی کے یہ اشعارکنندہ ہیں۔
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے
آپ کے مشہورمجموعہ کلام میں خوشبو،صدبرگ،خودکلامی ،انکاراورماہ تمام شامل ہیں
آپ کے مجموعہ کلام میں سے ایک خوبصورت غزل
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے