سقوط خلافت عثمانیہ؛ اُمت مسلمہ کی سات سو سالہ خلافت کااختتام

خلافت عثمانیہ

سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ریاست کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا دے کر تقسیم کر دیا گیا۔

تحریر رشیداحمد گنگوہی

آج سے سو سال قبل  3مارچ 1924اور28 رجب 1342ھ کی رات و ہ’’ شب سیاہ ‘‘تھی جس کے بعد مسلم امہ نے کوئی صبح نہ دیکھی۔ مصطفی کمال نے استنبول کے گورنر کو حکم دیا کہ ’’صبح طلوع ہونے سے پہلے خلیفہ عبد المجید ترکی چھوڑ چکے ہوں۔ اس حکم پر فوج اور پولیس کی مدد سے عمل در آمد کیا گیا اور خلیفہ کو مجبور کر دیا گیا کہ سویزر لینڈ جلاوطن ہو جائیں۔

پھر28رجب 1342ھ  مطابق 3 مارچ 1924 ء کو صبح یہ اعلان کیا گیا کہ’’ عظیم قومی اسمبلی نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور مذہب کے دنیا سے علیحدگی کے قانون کی منظوری دے دی۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ کرزن نے کہا ’’ترکی تباہ کر دیا گیا ہے اب وہ کبھی بھی اپنی عظمت رفتہ بحال نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت کو تباہ کر دیا ہے یعنی خلافت اور اسلام‘‘۔

خلافت کے خاتمہ کے بعد امت کی حالت ایسی ہوگئی جسے پرورش طلب بچہ اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائے اور خود غرض دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے تنہا رہ جائے۔ خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی استعماری کفار بھوکے بھیڑیوں اور گدھوں کی طرح اس امت پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے اس امت کا خون چوسنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اسلامی شریعت کو معطل کر دیا گیا۔

 سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ریاست کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا دے کر تقسیم کر دیا گیا۔ اسلام کی عادلانہ معیشت کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے بدل دیا گیا اور مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی اسلامی حکومت کے بجائے سیکولرکردار حکومتی ڈھانچے کے ذریعہ کی جانے لگی ۔

اس حادثہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ کبھی کوئی چیز اتنی جلدی فراموش نہیں کی کئی جتنی جلدی مسلمانوں نے اپنے اس مرکز کو دل و دماغ سے محو کر دیا جو ان کے اتحاد کی علامت تھا اور جس کے ذریعہ اپنے مسائل کے حل کے لیئے وہ عملی اقدامات اٹھایا کرتے تھے۔ خلافت ان کی دینی و سیاسی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ وہ اس کے انعقاد کو اپنے ہاں واجب سمجھتے تھےنماز ایسا واجب عمل ہے جو وضو پر موقوف ہے اس لیئے وضو کو نمازکا مقدمہ کہا جاتا ہے۔

جس کے ذمہ نماز واجب ہوگی ، نماز کا موقوف علیہ یعنی وضو بھی اسی کے ذمہ واجب ہوگا۔ نماز مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق واجب ہے تو اس کے اسباب کو شریعت کے مطابق مہیا کرنا بھی مسلمانوں ہی پر واجب ہوگا۔ اس لیئے ادارئہ خلافت پوری شریعت اسلامیہ میں مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مسلمان اپنے عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک تسلسل کے ساتھ منصب خلافت پر سرفراز رہے ۔ سیدناحضرت ابوبکر صدیق کے انتخاب 10ھ سے لیکر خلیفہ مستعصم باللہ عباسی کی شہادت 656ھ تک عالم اسلام خلیفۃ المسلمین سے کبھی محروم نہیں رہا۔ خلیفہ مسترشد باللہ جیسے سلطان مسعود سلجوقی نے 10رمضان المبارک 539ھ میں گرفتار کیا تھا اور جس کا زمانہ اسیری تین ماہ اور سات روز سے زیادہ نہیں تھا۔

 اس گرفتاری کے دوران عالم اسلام خلیفہ کے بغیر رہا لیکن اسلامی دنیا کے لیئے یہ ایسا المناک واقعہ تھا کہ جس کے رونما ہونے سے بغداد زیر وزبر ہوگیا۔ علامہ ابن  کثیر    نے اس اندوہناک منظر کو اس طرح پیش کیا کہ ’’بغداد کے باسیوں میں ظاہر و باطن کے لحاظ سے ایک زلزلہ آگیا۔

عوام نے مساجد کے منبر توڑ دیے اور نماز باجماعت میں شریک ہونا چھوڑ دیا۔ مسلمان عورتیں برہنہ سر باہر نکل آئیں اور خلیفہ کی قید پر رونے لگیں دوسرے علاقے بھی بغداد کے نقش قدم پر چل نکلے اسکے بعد یہ فتنہ اس قدر پھیلا کہ تمام علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ملک سنجر نے یہ حالت دیکھ کر اپنے بھتیجے کو معاملہ کی نزاکت سے خبردار کیا اور اسے حکم دیا کہ فوراً خلیفہ کو آزاد کر کے خلافت بحال کر دے۔ ملک مسعود نے اس حکم کی تعمیل کی۔‘‘

مسلمان خلیفہ سے کتنی عقیدت و محبت رکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ خلیفہ مستعصم باللہ کی شہادت پر شیخ سعدی نے ایک دلدوز مرثیہ کہا باوجودیکہ آپ مرکز خلافت سے بہت دور شیراز میں رہتے تھے۔ اس نوحے کے یہ اشعار بہت مشہورہیں:

آسمان را حق بود گر خوں ببارد بر زمین

بر زوال ملک مستعصم امیر المؤمنین

اے محمد ؐ! گر قیامت سربروں آردزِخاک

سربروں آرد قیامت درمیانِ خلق بین

ترجمہ:’’ اگر امیر المؤمنین مستعصم کے زوال پر آسمان،سے خون کی بارش ہو تو بجا ہوگا۔ اے محمد ؐ اگر ،قیامت زمین پر ہونی تھی تو آکر دیکھئے کہ،مخلوق خدا پر قیامت گزر گئی ہے۔‘‘

اسلام دشمن طاقتیں خلافت کو منہدم کرنا کیوں ضروری سمجھتی تھیں اس کا پتہ ایک واقعہ سے چلتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ساتھ تحریک آزادی کے سلسلہ میں مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے۔ وہاں ایک انگریز افسر تھا جس کا کسی جرم میں کورٹ مارشل ہوا تھا اور وہ بھی وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پوچھا کہ خلافت عثمانیہ، مسلمانوں کی ایک کمزور سی خلافت ہے۔

کیا وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس اور اٹلی اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم مسلمان اس نام کی خلافت سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن سارا یورپ اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تمہیں خلافت ترکیہ سے خطرہ کیا ہے؟

اس نے کہا مولانا آپ کا سوال اس قدر سادہ نہیں جس سادگی سے آپ پوچھ رہے ہیں یاد رکھیئے! خلافت عثمانیہ ایک کمزور سی خلافت ہے مگر قسطنطنیہ میں بیٹھا ہوا  ’’خلیفہ‘‘  آج بھی کسی غیر مسلم ملک کے خلاف اعلان جنگ کر دے تو مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک مسلمان نوجوانوں کی بھرتی شروع ہو جائے گی۔ سارا یورپ ان دو لفظوں ’’خلافت اور جہاد‘‘ سے کانپتا ہے یورپ کے تمام ممالک متحد ہو کر ان دولفظوں کی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے یہ کر دکھایا۔

خلیفہ عبد المجید ثانی کی معزولی اور سقوط خلافت عثمانیہ کا نامبارک اقدام امت مسلمہ کے لیے بیسویں صدی کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگیا مقاماتِ مقدسہ اغیار کے قبضہ میں چلے گئے۔ عالمِ عرب میں اسرائیل نے جنم لیا پاکستان دو لخت ہوا افغانستان میں آتش فشاں پھٹا بابری مسجد نے چیخ و پکار کی وادئ کشمیر مسلمانوں کا مقتل بن گئی عراق کا عرق نکال دیا ، لبنان خون میں نہا گیا، شام اور برما کے مظلوم مسلمانون کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ،مسلمان یتیم اور لاوارث ہوگئے۔

ضروری ہے ہمارے خواص و عوام نظام حیات اور طرز حکومت لینے کے لیئے اقوام مغرب کی طرف حریصانہ نظروں سے دیکھنے کے بجائے اپنا رشتہ تابناک ماضی سے جوڑ لیں اور شاہراہ خلافت پر گامزن ہوکر ایک حقیقت شناس مرد قلندر کے اس کہے کو سچا کر دکھائیں کہ:

؎ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر

 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ

یکم نومبر 1922 کو مصطفی کمال پاشا نے استعماری طاقتوں کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی قرار داد منظور کی اس وقت کے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کو اٹلی کی طرف ملک بدر کر دیا گیا۔ اْن کے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری و علاقی عثمانی خلیفہ بنایا گیا۔ مگر تین مارچ 1924کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر اسلام دشمنی اور مغربی پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتا ترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کر لیا ۔

ایک ایسا فتویٰ  جس نے ہزاروں ہسپانوی مسلمانوں کی جان بچائی

سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی اور یوں دنیا ئے اسلام رحمت عظیم خلافت اسلامیہ سے محروم ہوگئی۔ اسلامی شریعت کو معطل کر کے سر زمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک کو اپنا آئین قانون قومیت اور جھنڈا تھمانے کے ساتھ اْمت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا۔ اسلام کے عاد لانہ نظام معیشت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے اور لادینیت واشتراکیت کو جمہوریت کے حسین لبادہ میں پیش کر دیا گیا ۔

سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا۔ جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے ۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں اپنی زمینیں فروخت کیں۔ اور علماء کرام کے منع کرنے کے باوجود محض دگنی قیمت کے لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔

 اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ مادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کراسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ اْن کا اصل پروگرام ہے اس لئے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے۔

 مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنیوالے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ حتی کہ 1945میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے اْن کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا ۔

اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دیدی جسکے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالے کر دیا۔

Exit mobile version