احتجاجی مظاہرہ کے دوران کئی مظاہرین زخمی جبکہ پولیس کے سب انسپکٹر عدنان قریشی جان بحق ہوگئے
آزاد کشمیر میں آج چوتھے روز سے ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ۔ جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کال پر جاری احتجاجی مظاہرہ میں کشیدگی اس وقت آئی جب سستی بجلی ، آٹا کی سبسڈی کے لیے جاری احتجاجی مظاہرہ اور ہڑتال کے دوران مشتعل مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے آگئے تھے جس کے دوران پتھراؤ کے جواب میں پولیس نے آنسوگیس کی شیلنگ کردی تھی۔
بعدازاں پولیس کی جانب سے مختلف چھاپوں کے دوران کم از کم 70 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس اور احتجاجی مظاہرہ کے مشتعل مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی اور پتھراؤ کے دوران پولیس کا ایک سب انسپکٹر بھی جان کی بازی ہار چکا ہے جبکہ متعدد پولیس اہلکار اور مظاہرین زخمی ہیں۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
گزشتہ برس مئی سے شروع ہونے والی اس تحریک کے دو بڑے مطالبات ہیں جن میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دریاؤں سے پیدا ہونے والی بجلی ضرورت کے مطابق پیداواری لاگت پر واپس مقامی آبادی کو فراہم کرنے اور گندم کے آٹے کی قیمتوں پر گلگت بلتستان کے طرز پر سبسڈی دینے کے مطالبات شامل ہیں۔
دیگر مطالبات میں بیورو کریسی اور اشرافیہ کی سرکاری مراعات میں کمی، منتخب بلدیاتی نمائندہ کو ترقیاتی فنڈز کی منتقلی، کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بہتری، طلبہ یونین کی بحالی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بینک قرار دینے اور منگلا ڈیم پر رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل جیسے مطالبات شامل ہیں۔
احتجاجی مظاہرہ پرتشدد کیسے ہوا؟
ان مطالبات کے حق میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پورے کشمیر میں احتجاجی مظاہرہ اور دھرنے دینے کا اعلان کیا اور 28 ستمبر 2023 کو عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلوں کو کسی جگہ غباروں سے باندھ کر ہوا میں اڑایا، کسی جگہ نذر آتش کیا اور کسی جگہ پانی میں کشتیاں بنا کر بہا دیا۔
اس تمام عمل کو سول نافرمانی سے تعبیر دیتے ہوئے مرتکب افراد کے خلاف حکومت نے دہشت گردی کی ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئیں۔
دن بدن بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے نو وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئِے جن میں حکومت کے سامنے دس مطالبات رکھے گئے۔ چار فروری 2024 کو نو مطالبات کو تسلیم کر کے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔
پاکستان میں عبوری حکومت نے وزیردفاع لیفٹنٹ جنرل انور احمد حیدر کی سربراہی میں ورکنگ گروپس تشکیل دیے تاکہ بجلی سے متعلق معاملات کو یکسو کیا جاسکے تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ 30 مارچ گزرنے کے بعد مطالبات پورے نہ ہونے پر جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے راولاکوٹ اور دھیرکوٹ میں ایک اجلاس طلب کیا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 11 مئی کو میرپور اور پونچھ ڈویژن، ضلع ہٹیاں اور ضلع نیلم سے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی مارچ قانون ساز اسمبلی مظفرآباد کی طرف جائے گا اور وہاں مطالبات تسلیم کیے جانے تک دھرنا دیا جائے گا۔
11 مئی کے ریاست گیر احتجاجی مظاہرہ کے پیش نظر حکومت نے ریاست کے تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے آٹھ مئی سے مظفرآباد، کوٹلی، ڈڈیال سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرہ میں شامل کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔
ردِ عمل کے طور پر ایکشن کمیٹی نے ایک دن پہلے ہی 10 مئی کو ریاست بھر میں پہیہ جام و شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ میرپور، مظفرآباد اور پونچھ ڈویژنز مکمل طور پر بند رہے۔ تاجران، بلدیاتی نمائندے، وکلا، سول سوسائٹی نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر ریاست بھر میں احتجاج میں حصہ لیا۔
ایکشن کمیٹی کے مطابق ڈڈیال میرپور میں پولیس نے شہریوں کے گھروں میں داخل ہو کر رات کے وقت 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جس کے بعد شہریوں نے جمع ہو کر اسسٹنٹ کمشنر دفتر پر حملہ کر دیا، مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی توڑ کر اسے آگ لگا دی اور سرکاری عملے پر تشدد کرتے ہوئے انھیں دفاتر سے باہر نکال دیا۔
بات پھیلی تو ان گرفتاریوں کے خلاف میرپور، کوٹلی، حویلی و دیگر شہروں میں بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرہ شروع ہوگیا۔
ممبر عوامی ایکشن کمیٹی و صدر انجمن تاجر مظفرآباد شوکت نواز میر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ان گرفتاریوں کے خلاف عوام سے باہر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اپیل کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈڈیال میں گرفتار کیے گئے شہریوں کو فوری رہا کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ’پر امن احتجاج ہمارا حق ہے، عوامی حقوق کے لیے جدوجہد سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘
حکومت اور مظاہرین کے مذاکرات
گزشتہ شب حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مابین مذاکرات کا ایک دور ہوا جس میں مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے۔
امتیاز اسلم کے مطابق ہمارے تین مطالبات منگلہ ڈیم سے کشمیر کو بجلی لاگت کی قمت پر فراہم کی جائے۔ جس پر حکومتی وفد نے کہا کہ یہ واپڈا کا کام ہے اور اس میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ یہ اتنی جلدی ممکن نہیں اور شاہد یہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا دوسرا مطالبہ تھا کہ ہمیں آٹا حکومت پاکستان کے وعدے سبسڈی ریٹ اور اس ریٹ جس پر گلگت بلتستان کو دیا جاتا ہے فراہم کیا جائے اس پر انھوں نے کہا کہ وہ اس پر تیار نہیں ہوئے اور زائد نرخ بتا رہے تھے۔‘
یہ بھی پڑھیں؛کینیڈا؛ سکھ رہنما کے قتل میں ملوث چوتھا بھارتی ملزم گرفتار
ان کا کہنا تھا تیسرا مطالبہ تھا کہ ’بیورکریسی، ججرز، حکمرانوں، ممبران اسمبلی موجودہ اور سابقہ کی مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔ تاہم یہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے۔ مذاکرات کے ختم ہونے کے بعد احتجاجی مظاہرہ کے مظاہرین نے مظفرآباد کی طرف مارچ کا اعلان کردیا تھا ۔جو کہ اب راولاکوٹ پہنچ چکے ہیں۔
حکومت کا موقف
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے ترجمان ماجد خان کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے مذاکرتی کمیٹیاں بنائی گئیں تھیں اور مسائل کا حل بھی نکالا گیا تھا۔ تاہم آٹے پر حکومت کی جانب سے ٹارگلٹڈ سبسڈی کو ایکشن کمیٹی نے مسترد کر دیا تھا جبکہ بجلی کے لیے وہ پیداواری لاگ کی مطالبہ کررہے ہیں جس میں وفاقی حکومت اور واپڈا بھی انوالو ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گندم دونوں وفاق کے زیر انتظام مسائل ہیں اس لیے اس کا حل وفاقی حکومت سے بات کر کے ہی نکل سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان کی نگران حکومت کے ساتھ ان مسائل پر بات چیت ہوئی تھی اور حل تجویز کیے گئے تھے لیکن نگراں حکومت کے پاس فیصلہ سازی کے اختیار کم ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے یہ معاملات منتخب حکومت کے آنے تک چھوڑ دیے تھے۔ تاہم الیکشن کے بعد پاکستان خود اپنے معاشی بد تر حالات کا سامنا کر رہا ہے اس لیے کشمیر کے معاملات تعطل کا شکار ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وفاق ہمیں ریلیف دے تو ہم کچھ کر سکتے ہیں۔‘
حالیہ تحریک کے پر تشدد ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ماجد خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ تاجر احتجاج کریں گے اور ہم پر امن احتجاج کو روکنے کی حامی نہیں۔ تاہم ہمیں علم ہوا کہ 10 فیصد لوگ ایسے ہیں جو احتجاجی مظاہرہ کو پر تشدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہاں اسلحے کا استمعال ہوا اور پولیس والے زخمی ہوئے۔ ‘
ماجد خان نے بتایا کہ ’ہم نے احتیاطاً کچھ گرفتاریاں کی تھیں تاہم مظاہرین کو کسی مقام پر نہیں روکا گیا۔ تاہم سرکاری املاک کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ احتجاجی مظاہرہ کے دوران آتشیں اسلحہ استعمال ہوا جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ تاجر دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔‘
اس وقت بھی کشمیر کے مختلف علاقوں سے احتجاجی مظاہرہ مارچ مظفر آباد جا رہے ہیں، انھیں روکے جانے سے متعلق ماجد خان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مظاہرین سے محاذ آرائی کا کوئی ارادہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اس وقت ہماری بہت سے مقامات پر ان لوگوں سے بات چیت جاری ہے۔ وہ آئیں ہم سے بات کریں ہم وفاقی حکومت تک ان کی بات پہنچائیں گے۔ ہمارے ہاں غیر ملکی کام کر رہے ہیں اس لیے ہم بدامنی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مسئلے کا مذاکرات کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔
Comments 1